Monday, December 19, 2011

ا لوداع ۔ جناب حیدر قریشی ۔۔۔ یہ ہے آپ کا THE END

جمیل الرحمٰن
Jameelur Rahman

پہلے تو یہ سنئے کہ پچیس برس قبل تک ادبی رسالے کا مدیر کسے کہتے تھے؟
ادبی رسالے کا مدیر وہ ہوتا تھا۔ جس کے بارے میں یہ گمان یقین کی حد تک ہوتا تھا کہ وہ عربی ،فارسی ،انگریزی اور اردو زبان کے علاوہ شعر و ادب ۔۔۔ کے حسن و قبح میں تمیز کرنے کی اس قدر استعداد ضرور رکھتا ہے۔ کہ اگر اس کے جریدے میں کوئی تخلیق شائع ہو تو تخلیق کار کی صلاحیتوں کے لئے سند اور رسالے کے لئے باعث افتخار بن جائے گی۔
مگر جب سے آپ اور نصرت ظہیرجیسے ادب کے گھس پیٹھیوں نے ، جن کو عربی فارسی اور انگریزی کی کماحقہ شد بد تو کیا، اردو زبان وشعر و ادب سے واجبی واقفیت بھی نہیں، اس شعبے کی کمان تعلقات عامہ کے بل پر سنبھالی ہے۔ اردو ادب کا جو حال ہو رہا ہے۔ اس پر مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ادب سرشاری اور روح کی لطافت کا ذریعہ بننے کی بجائے طوائف کے کوٹھے کا رقص بن کر رہ گیا ہے ،جس سے ہر تماشبین جب اور جیسے چاہے نوٹ نچھاور کر کے ہم وصل ہو سکتا ہے۔

آپ فیس بک سے اس لئے بظاہر رخصت نہیں ہوئے کیونکہ یہاں آپ کے لئے سنجیدہ مباحث اور معیاری تنقید کی کمی تھی۔ بلکہ اصلیت یہ ہے کہ فیس بک پر آپ نے اپنی اداکاری سے جو تھوڑی بہت ساکھ بنا رکھی تھی۔ اُسے قائم رکھنے ، اُس میں اضافہ کرنے اور اپنے گروپ کو مزید مضبوط بنانے کی نیت ہی سے آپ مجھے فیس بک پر لائے تھے۔
شومئ قسمت سے وہ چال مجھ سے قربت نہ ہونے اور میرا مزاج نہ سمجھنے کی وجہ سے آپ پر بھاری پڑ گئی۔آ پ کا خیال تھا کہ میں ہر جائز و ناجائز عمل میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ مگر آپ یہ بھول گئے کہ ربوہ میں بھی جب آپ خان پور سے تشریف لایا کرتے تھے تو کوثر ٹی سٹال پر ہمارے گروپ کی زیارت کے لئے آنے کے باوجود بھی آپ کو کوئی خاطر خواہ پذیرائی نصیب نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ ہم میں سے کسی کو بھی آپ کسی طور ان صلاحیتوں کے مالک نظر نہ آتے تھے جو ایک اچھے شاعر اور ادیب میں ہونی چاہئیں۔ لیکن اس کے باوجود آپ کئی شماروں سے میرے متعلق یہ جھوٹا پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ وہ ملاقات جو جرمنی میں ایک اتفاق کے باعث ہوئی وہ میرے آپ کو ڈھونڈنے کے بعد ہوئی اور میں آپ کی ادبی فتوحات دیکھ کر آپ کے سامنے بچھ بچھ گیا۔
زندگی میں اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات میں نے آج تک نہیں سنی۔ خیر تو ذکر ہو رہا تھا فیس بک کا۔ کہ آپ فیس بک سے رخصت نہ ہونے کے باوجود روانہ کیوں ہوئے؟
ہوا یہ کہ آپ نے دیکھا کہ یہ بندہ جسے میں کچھ اور سوچ کر لایا تھا اور علی زریون سے جس کی ابتدائی خفگی پر جعلی اکاؤنٹ بنا کر اُس سے حساب برابر کرنے کی اسے پیشکش بھی کی تھی۔ اس نے تو انتہائی سرد لہجے میں وہ پیشکش ٹھکرا کر اس گھٹیا اور غیر ادبی سطح پر اترنے سے انکار کر دیا۔ لہذٰا یہ بندہ اپنے کام کا نہیں۔ یہ تو کسی بھی گھٹیا یا جعلی کام میں میرا ساتھ نہیں دے گا!
تو یہ پہلی مایوسی تھی جس کا آپ کو سامنا کرنا پڑا۔ پھر آپ کی تحاریر و افکار پر میری نکتہ چینیوں نے آپ کو سیخ پا کیا۔ کیونکہ علم العروض آپ کو آتا نہیں۔ عربی ،فارسی ،انگریزی ،جرمن ،اطالوی حتیٰ کہ اچھی اردو تک سے آپ کا کوئی لینا دینا نہیں۔ لیکن آپ اپنے خود ساختہ "جدید ادب" کی طرح جدید ادب کے مدیر ہیں۔ تو انجام کار ہونا تو یہی تھا کہ میں اگر ادبی معاملات میں کسی لحاظ کا قائل نہیں تو آپ کی بنی بنائی ساکھ کی ایسی کی تیسی کر دیتا۔
پہلے تو آپ نے اس کا توڑ یہ کرنے کی کوشش کی کہ میری ارسال کردہ تخلیقات پر مختلف ناموں سے عروضی اور لفظی اعتراضات کئے لیکن جب ہر جگہ منہ کی کھائی تو آپ نے خاموشی سے بظاہر رخصت ہونے ہی میں عافیت سمجھی۔ لیکن جانے سے پہلے شفیق مراد جیسے غیر ادبی آدمی کے ساتھ ربیعہ احمد کی فیک آئی ڈی سے وہ معرکہ لڑا۔ جس کا تعلق حسب معمول ذاتیات سے تھا۔ اسی آئی ڈی کے منہ سے آپ نے یہ در فنطنی بھی چھوڑی کہ ثمینہ راجہ آپ سے لکھواتی ہیں۔ آپ نے ٹیلیفون پر ایک مرتبہ خود ہی کسی ترنگ میں جو فرمایا تھا اس کا مفہوم یہ تھا کہ سینکڑوں فیک آئی ڈیز آپ نے رشید ندیم کے توسط سے بنائیں اور بند کیں۔ مگر آپ انتہائی ایماندار،صادق اور کھرے کردار کے حامل اور قافلۂ اتقیا کے میر کارواں ہیں۔
(سب بولو۔ حیدر قریشی کی جے)۔

آپ لوگوں کے محسن اور دوست بھی ہیں جیسا کہ نذر خلیق جیسے ساری عمر کے دوست کو، ( جس نے آپ کی بلند اقبال شخصیت کو اجاگر کرنے میں اپنی جوانی لٹا دی )جدید ادب کی ادارت سے ایک ذرا سی بات پر علیحدہ کر کے اپنی کشادہ ظرف دوستی کا ثبوت دیا مگر بعد ازاں میرے سمجھانے پر کہ لوگ کیا کہیں گے دوبارہ واپس لے لیا۔ خالد ملک ساحل جیسے درویش صفت سے جس نے آپ کی بیہودہ غزلوں کی تزئین کر کر کے فیس بک پر آپ کا نام چمکایا۔ اسلئے ناراض ہوئے کہ انہوں نے اپنی وال پر آپ کی پوسٹ کے اوپر اپنی پوسٹ کیوں لگا دی۔ ۔ انسانی تعلقات نبھانے کے کتنے ماہر ہیں آپ۔
پروازی صاحب، جو آپ کی وزیر آغا مرحوم سے قربت اور تعارف کا باعث بنے۔ اُن کی عمر ،شہرت اور مقام کا لحاظ کئے بغیر آپ نے ان کی ایسی عزت افزائی فرمائی کہ آئیندہ سے کوئی شریف آدمی کسی کو کسی سے متعارف کرانے سے بھی خوف کھائے گا۔ اُس پر طرّہ یہ کہ میرے حق میں یہ مسلسل بیان جاری کیا جارہا ہے کہ میں نے اُن کا ساتھ دینے پر آپ سے اظہار ندامت کیا۔ شرم نہیں آتی آپ کو۔ میں تو یہ سوچ کر حیران ہوں کہ اتنا جھوٹ بول کر آپ اسے ہضم کیسے کر لیتے ہیں۔

اب آئیے موجودہ قضئے کی طرف۔ جس میں میری حمایت حاصل نہ ہونے اور ادبی اصولوں کی میری پاس داری کرنے کی ضد نے آپ کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ مجھے وہ سب باتیں کہنی پڑ رہی ہیں۔ میں جن سے ہمیشہ صرف نظر کرتا رہا۔

آپ چاہتے تھے کہ میں عمران کے معاملے میں سرقے سے ہٹ کر اس کے ذاتی معاملات کے بارے میں ،خواہ ان کا زیر بحث لانا کتنا ہی غیر ادبی کیوں نہ ہو آپ کا ساتھ دوں۔ اور یہ ناممکن تھا۔ کیونکہ اردو زبان لکھنے بولنے اور پڑھنے کے لئے یہ شرط کب سے طے پائی ہے کہ جو اسے جاننے کا سزاوار ہو وہ اسلامی اقدار اور اُس کے اخلاقی معیار کا حامل بھی ہو ؟
اخلاقیات کا جو معیار بطور شخص آپ کو احمدیت ، بہایت یا ہندو ازم کے فکری و روحانی چولے بدلنے کی اجازت دیتا ہے وہی معیار عمران شاہد بھنڈر کو جائز یا ناجائز باپ ہونے یا تعلیم کے بارے میں غلط بیانی کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
اس بات کا کسی ادبی معاملے سے کیا تعلق ہے؟
اُس کی پی ایچ ڈی کو چھوڑئے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ عمران نے مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی۔اس کے باوجود اس کا نارنگ کے سرقوں کو مع تمام حوالوں کے بے نقاب کرنا ہی اتنا بڑا کارنامہ ہے، جس کی جتنی داد بھی دی جائے کم ہے۔ اگر تو عمران کے پیش کئے ہوئے حوالے غلط ہیں تو کسی اخلاقی معیار کا سوال پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن جب ایک تیر نشانے پر لگ چکا ہے تو اس کے بعد شکاری کے لولے لنگڑے ہونے یا اس کے فاترالعقل ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ آپ تو بزعم خود ادب کے بلند مینار پر براجمان ہیں۔ کیا آپ کی سمجھ میں اتنی ذرا سی بات بھی نہیں آتی۔۔کیا آپ ادب کے ہر سنجیدہ طالب علم کو اپنی طرح بے وقوف سمجھتے ہیں۔ ؟؟؟

آپ کو یاد ہوگا کہ محترمہ نعیمہ ضیا الدین کے بارے میں آپ نے "اردو مرکز ، امریکہ" کو لے کر کیا ہنگامہ کھڑا کیا تھا۔ جب آپ کی کتاب کے بجائے ان کے افسانوں کے مجموعہ کو انعام سے نوازا گیا تھا۔
آپ نے اس وقت بھی ان کے ہجرت کے موضوع پر تحریر کردہ ایک افسانے پر میرے یہ کہنے کے باوجود سرقہ ہونے کا الزام لگایا کہ جس افسانے پر آپ سرقے کا الزام لگا رہے ہیں وہ اس افسانے سے یکسر مختلف ہے، جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں۔
مگر آپ کو اصل تکلیف اور حسد یہ تھا کہ نعیمہ کو یہ انعام کیوں ملا؟ میری یہ رائے جاننے کے بعد تو آپ کی وحشت دو چند ہو گئی تھی کہ امیگرینٹس کے مسائل کی موجودہ صورتحال پر یورپ میں نعیمہ سے بہتر افسانے کسی نے نہیں لکھے۔
اس زخم کو آپ آج تک چا ٹ رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب میں نے "رشید امجد" کے شاعری کے ساٹھ سالہ انتخاب کے بارے میں شکایت کی کہ رشید امجد نے اس انتخاب میں یہ ہر ممکن کوشش کی ہے کہ کسی کی کوئی اچھی نمائیندہ غزل اس میں شامل نہ ہو سکے اور یہ محض پیسے کا ضیاع ہے۔ جس کے خلاف بطور ایک مدیر کے، آپ کو آواز اٹھانی چاہئے کہ شاعری کے انتخاب کے لئے رشید امجد کا انتخاب غلط تھا تو چونکہ آپ کی غزلیں بھی اس انتخاب میں شامل تھیں اور ویسے بھی رشید آپ کے دوست ہیں، تو آپ نے اپنے روشن ضمیر اور ایمان دار دل کا ثبوت دیتے ہوئے مجھے یہ جواب دیا تھا کہ کیا ہر غلط کام کے خلاف آواز بلند کرنے کا میں نے ٹھیکا لے رکھا ہے؟
آپ نے بالکل درست فرمایا تھا کیونکہ اس سے آپ کے کئی مفادات پر ضرب پڑنے کا اندیشہ تھا۔ مجھے حیرت تو اُس وقت ہوئی جب خالد ملک ساحل صاحب نے مجھے بتایا کہ :
"بقول آپ کے مجھے یہ انتخاب اس لئے پسند نہیں آیا، کیونکہ میرا کلام اس میں شامل نہیں تھا"۔
یقین جانئے اسی دن سے میرے جیسا گنہگار آپ کی روشن ضمیری اور دیانت و صداقت کا قائل و گھائل ہے۔ آ پ نے کیامجھے بھی اپنے جیسا شہرت طلب اور اس گھٹیا کردار کا حامل سمجھ رکھا ہے کہ اصولی بات کے بجائے اپنے مفاد پر ضرب پڑنے والی کسی بات کا ہی نو ٹس لوں۔

شمس الرحمن فاروقی سے میری عقیدت ومحبت و قربت کئی اور لوگوں کی طرح آپ کو بھی بہت تکلیف دے رہی ہے۔ اسی لئے آپ نے اشعر نجمی کے حوالے سے مجھ پر وہ گھناؤنا الزام لگایا ہے۔ جس کی تردید میں پہلے کر چکا ہوں۔ ظفر خان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ نے اپنے خلاف متوقع صف بندی کو دیکھتے ہوئے پیش قدمی کے طور پر پھوٹ ڈلواؤ اور حکومت کرو والی چال یہ یاد رکھے بغیر چلی کہ برطانیہ عظمیٰ کو اپنا بوریا بستر لپیٹے بہت مدت ہو چکی۔
پرانے حربے کند ہو چکے ہیں۔ کچھ نیا سوچئے۔

آپ کے بارے میں بہت سی پیشگوئیاں کر سکتا ہوں۔ مگر نہین کرون گا۔
اس مرتبہ آپ نے غلط لوگوں پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اگر جمیل الرحمن یا اشعر نجمی کو زیر کرنا ایسا آسان ہوتا تو آج ہم لوگ ادبی سطح پر کہیں نظر نہ آ رہے ہوتے۔ آپ کی طرح فیک آئی ڈیز کے پیچھے چھپ کر فیس بک پر یا تو ماہئے گا رہے ہوتے یا غیر ادبی ایشوز پر بندروں کی طرح اچھل کود میں مشغول رہتے۔
رہا عمران۔ ۔تو میرا یہ آپ کو آخری دوستانہ مشورہ ہے کہ اگر کچھ باقی بچانا ہے تو اس سے مزید مت الجھئے۔ وہ فلسفے کا سہی مگر انتہائی پڑھا لکھا اورذہین آدمی ہے۔ ابھی نو وارد ہے تو کیا ہوا۔ وہ علمی سطح پر آپ کو کچا چبا جانے کی اہلیت کا مالک ہے۔ میں نے اس کے بارے میں آپ کو اپنی دیانت دارانہ رائے بتا دی ہے۔ باقی آپ کی مرضی۔

تو یہ ہے آپ کا کچا چٹھا اور کردار۔
بہتر یہی ہے کہ جو لوگ از راہ مروت ہی سہی، ابھی تک آپ کے ساتھ ہیں، اپنی احمقانہ ضد نبھانے کے واسطے ان سے بھی ہاتھ مت دھو بیٹھئے گا۔
باقی آپ کی حرکتون سے یہ تو روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہو ہی چکا کہ آپ کتنی خدا رسیدہ اور بلند مرتبت شخصیت ہیں؟
اللہ آپ پر رحم کرے۔

والسلام
آپ کا اب بھی خیر خواہ
احقر العباد ۔۔۔۔۔ جمیل الرحمن

0 تبصرے:

Post a Comment