تعارف

یہ بلاگ اردو کی ادبی روایت کے اس منفی پہلو کو سامنے لانے کے لئے تخلیق کیا گیا ہے ، جس کے خود غرض عناصر نئی نسل کے اذھان کو بھی اسی شخصیت پرستانہ زنجیر میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں ، جس کے ہونے کا جواز علمی نہیں بلکہ مبنی بر مفاد۔۔۔ات ہے۔
علم کی زنجیر ۔۔ عالموں کی کڑیوں ہی سے جنم لیتی ہے اور ایک خط مسقیم میں آ گے بڑھتی ہوئی زنجیر ہوتی ہے ۔ اس لئے کسی عالم کی تخلیقی اپج یا اس کے افکار سے کسی کا متاثر ہونا کوئی انہونی بات نہیں ۔ مگر جب یہ زنجیر صراط مستقیم پر بڑھنے کی بجائے ایسے گلوبندکی شکل اختیار کرلے جو شخصی محبت و عقیدت کے سامنے نہ صرف علمی اور تجزیاتی سچ کا گلا گھونٹنے سے بھی باز نہ آئے بلکہ کوڑوں کی طرح وہ سچ بولنے والوں پر برسنا شروع کردے تو ایسی زنجیر کو توڑ کر پھینک دینا ہی اچھا ہوتا ہے ۔

اردو دنیا کے ایک بڑے نام ، نقاد، عالم اور شعلہ نوا مقرر ، جناب گوپی چند نارنگ کی مغربی تنقید کے سرقوں کو ادبی دنیا میں نووارد عمران شاہد بھنڈر نے پہلی مرتبہ 2006ء میں فاش کیا کیا ۔ بجائے اس کے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جاتا اور اس کا کوئی علمی جواب دیا جاتا ، پہلے تو پوری "نارنگی" اور "آغائی" دنیا میں ایک صف ماتم بچھ گئی ۔اور پھر عمران کو بذات خود منظر عام پر لانے کے بعد جب ان حلقوں کو یہ احساس ہوا کہ ان سے بوجوہ ایک صریح غلطی ہو چکی ہے تو اس غلطی کو سدھارنے کے لئے انہوں نےعمران کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالنے کاگھناؤنا کھیل شروع کر دیا۔
اس سازش کے مرکزی کردار حیدر قریشی ، مدیر جدید ادب (جرمنی) ہیں، جنہوں نے سب سے پہلے عمران کے سہارے ساری ادبی دنیا میں بیسویں صدی کے اس عظیم سرقے کے انکشاف کا سہرا اپنے سر باندھا تھا، لیکن اس دفعہ اپنی ہی "تردید" میں آگے آئے اور عمران کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا جو اس کھیل میں شراکت کے لئے آمادہ نہیں تھے۔

یہ بلاگ نئی نسل اور مستقبل کے مؤرخ کو حقائق سے باخبر رکھنے کا وہ عصری ادبی منظر نامہ ہے ، جس میں آپ اندھے تقلیدی اور علم دشمن رویے کے ساتھ ساتھ مفاد پر مبنی شخصیت پرستی کا مکروہ چہرہ بھی دیکھ سکیں گے۔