Tuesday, December 13, 2011

جبینِ اسود پہ کذبِ ابیض کا اک تلک

جمیل الرحمٰن
Jameelur Rahman
وہ جس نے اپنی جبینِ اسود پہ کذبِ ابیض سے پھر نیا اک تلک لگایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھیڑ کی کھال میں ملبوس جدید ادب کے فرشتہ سیرت اورمیرے سدا کے محسن مدیر نے شمارہ نمبر 18 میں صفحہ نمبر98 پرمیرے حوالے سے جناب شمس الرحمن فاروقی اور اشعر نجمی کے بارے میں دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے احسانوں میں ایک اور احسان کا اضافہ کیا ہے ۔ جس کا ذکر کرنے سے پہلے ریکارڈ پر ایک بات لانی ضروری ہے۔

کئی برس پیشتر جب حیدر قریشی کا ہمارے کالج میں اردو کے پروفیسرجناب ڈاکٹر پرویز پروازی سے حسب معمول خدا واسطے کا غیر ضروری بیر چل رہا تھا۔انہوں نے مجھے انتباہ کیا تھا کہ کبھی اس شخص سے ٹیلیفون پر غیر محتاط گفتگو نہ کرنا۔یہ شخص اتنا بد طینت ہے کہ مخلصانہ دوستی کا جھانسہ دے کردوستوں کی عمومی اور ان کے کمزور لمحات کی گفتگو نہ صرف ٹیپ کرتا ہے بلکہ موقع ملتے ہی اس کوبے دریغ استعمال بھی کرتا ہے۔اس کے لئے اپنے مفاد کے علاوہ کسی اور رشتے کی کوئی اہمیت نہیں ۔اُن کی یہ بات میں نے اُسی وقت ا پنی گرہ میں باندھ لی تھی ۔اسی لئے اور جب کبھی ان حضرت سے گفتگو کی۔ انتہائی محتاط ہو کر کی ۔

اب تازہ شمارے کے اس صفحے پر کیا پڑھتا ہوں کہ میں نے فاروقی صاحب کا نام لے کر انہیں بتایا کہ اشعر نجمی کو نارنگ نے فلم وغیرہ دلوا دی ہے۔
اب میں اسے کیا کہوں ۔لعنت بھیجنے کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں کیونکہ یہ شخص ویسے بھی جھوٹی قسمیں کھانے کا ماہر ہے۔میں نے اتنا ضرور کہا تھا کہ فاروقی صاحب نے بتایا ہے کہ اشعر نجمی کو شاید کوئی فلم وغیرہ مل گئی ہے ۔جس کی وجہ سے وہ غائب ہیں ۔مگر یہ نارنگ نے دلوائی اور فاروقی بھائی نے مجھے ایسا کہا۔

اس سے زیادہ کذب صریح اور کیا ہو سکتا ہے ۔ بظاہریہ معصوم مگر کینہ پرور شخص جس ہنر مندی سے میرے جملے میں اپنے زہریلے لفظ ملا کر پیش کر رہا ہے ۔اس کی اسے داد ضرور ملنی چاہئے۔اس نے سوچا ہوگا ۔جمیل الرحمن کے پاس تو کوئی رسالہ ہے نہیں ۔جہاں وہ میری اس بات کی تردید کر سکے ۔لہٰذا میدان کھلا ہے جو چاہے لکھو۔پہلے مجھے اور اشعر کوفاروقی بھائی کے کارندے کا خطاب دیا اور پھر یہ جھوٹ ۔اس شخص کو یہ پتہ نہیں کہ فتنہ پرور ہونے کے باوجود ابھی اس کے دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے۔پنجہ آزمائی تو بہت دور کی بات ہے۔نہ اسے شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت، شفقت اور علمیت کا اندازہ ہے اور نہ ہی اُن سے میرے محبت و عقیدت پر مبنی رشتے کی سمجھ ہے اور۔۔ نہ ہی اشعر کے تعلق کی۔اس کا خیال ہے کہ یہ بھی اسی طرح کا ایک تعلق ہے جیسا کہ نارنگ صاحب کے ساتھ ان جیسے مفاد پرستوں کا ہے۔اسے خبر ہی نہیں کہ جو رشتے علم کے احترام میں استوار ہوتے ہیں وہ اتنے کچے نہیں ہوتے کہ کہ کسی کے جھوٹ بولنے ،لعن طعن کرنے یا زہریلے پراپیگنڈا یا کسی کے منہ میں اپنے لفظ ڈال دینے کی بدولت ٹوٹ جائیں یا ان میں کسی قسم کی دراڑ پڑ سکے۔

اگرچہ میری کسی ایسے جریدے تک رسائی نہیں ۔جہاں میں مدیر موصوف کے اس بیان کی واضح تردید کر سکوں مگر ریکارڈ کے لئے اس میسر فورم پر اسے شائع کر رہا ہوں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

احقر العباد
جمیل الرحمن

0 تبصرے:

Post a Comment