Friday, December 2, 2011

گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر

جمیل الرحمٰن
Jameelur Rahman
سچ تو یہ ہے کہ جناب گوپی چند نارنگ نے سرقے کا ارتکاب کیا ۔ اور ساری ادبی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بڑی دیدہ دلیری سے کیا۔ ان کے اس جرم کا پردہ فاش کرنے کی ابتدا زبیر رضوی، سی ایم نعیم اور فضیل جعفری نے کی اور عمران شاہد بھنڈر نے اس کے تمام ثبوت و شواہد انتہائی دیدہ ریزی سے ادبی دنیا کو فراہم کر دئے۔۔ کھیل ختم اور پیسہ ہضم

حیدر قریشی کون ہیں؟
عمران شاہد بھنڈر پروفیسر ہیں یا نہیں؟
ادبی دنیا کو اس سے کیا لینا دینا ہے۔یہ سب اصل واقعہ اور ایک شرمناک دھاندلی سے توجہ ہٹانے کی باتیں ہیں ۔ایک صاحب اپنے فورم پر پوچھ رہے ہیں کہ شمس الرحمن فاروقی نے اس کے بارے میں کیوں کچھ نہیں کہا ۔بھائی ۔جب چور ی کی نشاندھی پہلے ہاتھ ہی ہو چکی تھی اور وہ ایک ایشو بننے کے عمل سے گزر رہی تھی تو اسے ایشو بنانے کا مطلب یہ ہوتا کہ اپنے ادبی مرتبہ کے اعتبار سےبیان دے کر اسے ثابت کرنے کے لئے فاروقی صاحب کو مابعد جدیدیت کے فلسفہ پر عمران کی طرح ایک پوری کتاب لکھنی پڑتی ۔۔کیا فاروقی صاحب کو اب یہی کام رہ گیا ہے کہ وہ اپنا اصل کام چھوڑ کر چوروں کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیں کیا وہ فلسفے کے آدمی ہیں یا ادب کے ؟؟؟؟ پتہ نہیں بعض لوگ بات کرنے سے پہلے اسے تول کیوں نہیں سکتے۔۔

عمران شاہد بھنڈر نے اپنی حیثیت میں ایک شاندار کارنامہ سر انجام دے کر بت شکنی کا جو ارتکاب کیا ہے ۔ اس کی سزا عمران کو ضرور ملنا چاہئے ۔مگر ادبی دنیا سے یہ توقع کہ وہ اس احسان کو فراموش کردے ایک غیر دیانتدارانہ اور بےسود توقع یوگی۔
گیا ہے سانپ نکل تو لکیر پیٹا کر۔

0 تبصرے:

Post a Comment