Thursday, December 15, 2011

تھی خبر گرم ۔۔ ایک جواب ایک مضمون

جمیل الرحمٰن
Jameelur Rahman

جرمنی سے نکلنے والے ایک ادبی چیتھڑے کے فتنہ جو اور نرگسیت کے شکار مدیر جو اپنے روز پیدائش ہی سے مقام ولائت پر فائز ہیں۔ بہت عرصے سے میری کردار کشی میں مصروف ہیں۔ اُن کی ادبی حیثیت تو اُن کے چاہنے والے ہی جانتے ہوں گے۔ میں تو صرف اتنا ہی جانتا ہوں کہ گیارہ کتابوں کے مصنّف ہونے کے باوجود شاعری تا دم تحریر کبھی اُن کے بس کی بات نہیں رہی۔ رہا افسانہ۔ تو ایک بزرگ کی تحریروں سے اخذ کر کے انہوں نے کبھی ایک افسانہ لکھا تھا۔ جو قدرے گوارا تھا اورجس کے برتے پر وہ آج تک اترا رہے ہیں۔

درجہ اول کے کسی رسالے میں آج تک ان کی کسی تحریر کو جگہ نہیں مل سکی۔ چونکہ تعلقات عامہ کے ماہر اور گروپ بازی پر ایمان رکھتے تھے۔ اس لئے ڈاکٹر وزیر آغا مرحوم کی عنایات کے صلے میں ادبی سطح پر روشناس ہوئے۔ پھر انہی تعلقات کے بل پراپنا رسالہ نکالا اور اب مدیر ہونے کے ناطے ایسے گھٹیا ایشوز اٹھا کر جن کا کسی سنجیدہ علمی و ادبی بحث سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو ادبی سطح پر زندہ رکھنے کی کو ششوں میں مصروف ہیں۔

موصوف نے اپنی یہ عادت ثانیہ بنا لی ہے کہ پہلے کسی شخص کے بارے میں کوئی اصلی یا فرضی تنازع کھڑا کر کے ایک فتنے کا در کھولتے ہیں۔ اور جب جوابی طور پر بے بھاؤ کی پڑتی ہیں تو اپنی مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کی طرح کوسنے اور بد دعائیں دینے لگتے ہیں۔ شہرت کمانے کے ہوکے نے انہیں کن کن بچگانہ موضوعات پر تحقیق کرنے کی راہ نہیں دکھائی۔ "ماہیا" جسے اردو میں کبھی بار نہ مل سکا۔ جس کی جان اور اٹھان پنجابی میں ہے۔ انہیں جب شہرت پانے کی کوئی راہ نہ ملی تو اس کی تحقیق کا ڈول ڈال کر امامِ ماہیا بن بیٹھے۔

میں نے انہیں کبھی اس قابل ہی نہیں سمجھا کہ ان کی الزام تراشیوں اور یاوہ گوئی کو قابل لحاظ سمجھ کر اپنا وقت ضائع کروں۔ میں اب بھی خاموش رہتا۔ اگر وہ اپنے علمی افلاس کا ثبوت اپنے سے بھی زیادہ ایک عالم فاضل کا انتہائی عالمانہ رعونت سے تحریر کردہ تبصرہ میری نظموں کے مجموعے پر شائع کر کے اس کے تلے ایک مقدس بزرگ کے وہ اشعار نہ لگاتے۔ جن کا اُس مضمون کے نیچے لگنا ہی اُن اشعار کی توہین کرنے کے زمرے میں داخل ہے۔

میں ذاتی حوالے سے ان کی کسی بات کا جواب اب بھی دینا پسند نہیں کرتا۔ رہے اشعر نجمی اور عمران بھنڈر۔ ۔تو اپنے معاملات وہ بخوبی نبٹانے کے اہل ہیں۔

مجھے تو اُس تبصراتی مضمون کا جواب بھی اس لئے دینا پڑ رہا ہے کہ اس کے جواب میں کام کی کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جن سے نئی نسل استفادہ کر سکتی ہے۔

میری کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے وہی بات جسے مدیر موصوف خود بھی کہہ چکے تھے۔ اسی بات کو لے کر اس تبصرہ نگار نے اپنے مضمون کا آغاز کیا۔ وہ بات کیا تھی؟ اُس کی طرف میں بعد میں آؤں گا۔ پہلے ذرا مجھے اس تبصرہ نگار کا تعارف کرانے دیجئے۔

"احسان سہگل"
جنہیں میری کتاب پر تبصرہ کرنے کا شوق چرایا۔ اُن کا تعلق کبھی کراچی سے تھا اور عرصۂ دراز سے وہ ہالینڈ میں مقیم ہیں۔ خود کو ماہر عروض کہتے ہیں۔ نامانوس بحور میں طبع آزمائی کرنے کے خبط کی بنا پر ابن انشا سے لیکر مشفق خواجہ تک کے ذومعنی تبصروں میں بین السطور موجود تضحیک کو آج تک اپنی ستائش سمجھ رہے ہیں۔ ساڑھے آٹھ سو صفحات پر پھیلے اپنے اشعار کی کلیات حال ہی میں شائع کرا چکے ہیں۔ لیکن مجال ہے کہ خوردبین سے دیکھنے پر بھی ایک مصرع تر کہیں مل سکے۔

میں نے اپنی نظموں کے مجموعے کی ابتدا میں ایک نوٹ شائع کیا تھا۔ جسے من وعن یہاں بھی درج کر تا ہوں تاکہ نفس مضمون کی ابتدا سمجھنے میں قاری کو کسی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرا نوٹ یہ تھا۔

اربابِ نقد و نظر کے لئے ایک وضاحتی نوٹ!

1
بیسویں صدی میں دیسی بدیسی الفاظ کو مرکب کرنے یا ان کے مابین واؤ عطف کے استعمال پر جو ناروا پابندی عائد کی گئی۔انشا اللہ خاں انشا کی دریائے لطافت یا متقدمین کی اختیار کردہ روش سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔شاہ حاتم جنہوں نے انتہائی زور و شور سے اصلاح زبان کی تحریک چلائی،وہ بذات خود اس غیر منطقی قاعدے کی پابندی نہیں کر پائے۔اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ضامن علی جلال،سیّد محمد خاں رند اور دیگر کئی اساتذہ نے بھی اس قاعدے کو در خور اعتنا نہیں سمجھا۔میں بھی اردو زبان کے حق میں اس ممانعت کو سم قاتل سمجھتا ہوں۔لہٰذا میں نے بھی اپنی شاعری میں اسے کہیں قابل لحاظ نہیں گردانا۔
(مزید تفصیل کے لئے دیکھئے۔جناب شمس الرحمن فاروقی کی لغات روز مرّہ،نیز عروض ،آہنگ اور بیان)۔
2
اگرچہ ہر نظم کو لکھتے ہوئے میں نے روائیتی عروض اور پنگل سے حسب ضرورت کام لیا ہے۔ مگرجہاں خیال اور جذبے کی ترسیل میں کسی معین لفظ کے استعمال کے بارے میں عروضی تقاضوں نے کوئی اڑچن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے،میں نے لفظ کی نا گزیریت کو عروض کی ثانویت پر ترجیح دی ہے۔عکس اور پر چھائیں ایسے قریب المفہوم الفاظ میں اُن کی اپنی معنویت کے لحاظ سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔۔کسی ایک لفظ کی جوہری اکائی نہ صرف معین بلکہ ہر دوسرے لفظ سے مختلف ہوتی ہے۔لہٰذا اگر کہیں ایک معین لفظ کا استعمال ناگزیر ہو جائے تو وہاں اُس کا متبادل لفظ اختیار کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔خیال و جذبے کا جمال لفظ کے بنیادی جوہر کو بروئے کار لا کر ہی نکھر سکتا ہے۔میری رائے میں جہاں لفظ کے بنیادی جوہر کے امکانات کو بروئے کار لانے کا مسئلہ درپیش ہو،ایک نظم گو کے لئے عروض کی حیثیت ثانوی ہو جانی چاہئے

لیجئے صاحب۔ یہ تھا وہ نوٹ۔ جس کو بنیاد بنا کر پہلے تو مدیر موصوف نے اپنے تبصرے میں یہ اعلان فرمایا کہ یہ نوٹ لکھ کر جمیل الرحمن نے اپنی عجز بیانی کا اعتراف کر لیا ہے۔ بعد ازاں اسی بات کو لے کر اُن کے خواجہ تاش نے خامہ فرسائی کی۔اب اردو زبان و شعر کے ان خود ساختہ عالموں کو کون بتائے کہ عجز بیانی کس چڑیا کا نام ہے۔ اور اس واضح نوٹ میں کیا بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن یہ تو انہیں تب سمجھ میں آتا جب ان دونوں حضرات کا شاعری یا زبان و ادب سے کوئی سنجیدہ واسطہ ہوتا۔ جو لوگ اپنی زبان تک درست طریق پر نہ سمجھ سکتے ہوں ،بدیسی زبانیں ویسے ہی اُن کے بس سے باہر ہوں اور اردو یا انگریزی کا ایک صحیح جملہ بولنے کی کوشش میں جن کی زبانیں ہکلاتی ہوں۔ وہ لفظ کے جوہر کی اصلیت اور عروض کی ثانویت سے کیسے واقف ہو سکتے ہیں۔ اُن کے تئیں تو عروض ہی کی بنیاد پر شاعری ہوگی۔چاہے عروض کا اپنا وجود عظیم شاعری ہونے کے کہیں بعد منصہ شہود پر رونما ہوا ہو۔

صاحب مضمون اپنے اس عالمانہ مضمون میں نکتہ آفرینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

جمیل الرحمن نے اپنے وضاحتی نوٹ میں اس رائے کا اظہار کر کے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ وہ قادر الکلام شاعر نہیں ہیں
(اللہ مجھے آپ دونوں جیسا قادر الکلام کبھی نہ بنائے۔ناقل)
یہ بات ممکن ہی نہیں کہ ایک شاعر کے پاس کوئی متبادل اور بہتر دوسرا لفظ نہ ہو۔جو عروضی اور معنوی دونوں لحاظ سے درست بیٹھتا ہو۔عروض شاعری کی بنیاد ہے۔انہوں نے لفظ کی ناگزیریت کو عروض پر فوقیت دی ہے۔ یہ ان کی اپنی ناقص رائے ہے
(ذرا لفظ "ناقص" کا طمطراق ملاحظہ ہو)
کلاسیکل شعرا اس نکتے پر دوسری طرح سوچتے ہیں۔ یہاں صرف مرزا غالب کی ایک مثال دوں گا
(سبحان اللہ۔۔ذرا ہمت تو دیکھئے کہ مثال دینے کے لئے ہاتھ بھی ڈالا تو اُس شاعر پر۔ جو یہ کہتا ہے
گنجینۂ معنی کا طلسم اُس کو سمجھئے
جو لفظ کہ غالب مرے اشعار میں آوے

جس سے جمیل الر حمن کے استد لال کی مکمل نفی (؟) ہوتی ہے۔ غالب کا ایک مشہور شعر ہے۔
( ذرا لفظ "ایک" کا استعمال یہاں ملاحظہ ہو)
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
(اب اس کے بعد جگر تھام کر موصوف کا بیان پڑھئے)۔
غالب کے شعر کے دوسرے مصرعہ میں لفظ۔ درد۔ استعمال ہوا ہے۔جو صرف عروض کی مرکزیت کو قائم کرنے کے لئے ہے
(انا للہ و انا الیہ راجعون)
ورنہ یہاں لفظ۔ مرض۔ بھرپور معنویت کا حامل ہوتا۔
(کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا)
لیکن اس سے وزن کا خانہ خراب ہو جاتا۔جیسا کہ جمیل الرحمن نے اپنی کئی نظموں میں لفظ کی نا گزیریت کا سہارا لے کر کیا ہے۔
(جدید ادب۔جرمنی۔شمارہ نمبر 18 صفحہ نمبر40)

موصوف کا یہی ایک اقتباس کسی بھی ایسے قاری کو جسے زبان ا ور شعر و ادب کے رموز سے ذرا بھی آشنائی ہو یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ موصوف کی فکری سطح اور علمی معیار کا درجہ کیا ہے۔نیز وہ مدیر جس نے اس مضمون کو بغض معاویہ کے تحت شائع کیا ہے اُس کی اپنی علمی استعداد کیا ہو سکتی ہے۔

خیر اس بات کو چھوڑئے کہ عروض کی مرکزیت کس بلا کا نام ہے۔ کیونکہ اگر موصوف نے ذرا بھی عالمی شاعری کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں یہ بات کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔انگریزی ،لاطینی اور دیگر زبانوں کا تو ذکر ہی کیا۔برّصغیر ہی کی شاعری میں انہیں پالی اور سنسکرت کی اُس عظیم شاعری کے نمونے مل جاتے۔جن کے فرشتوں کو بھی اِن کے عروض کی مرکزیت کی خبر نہ ہوتی۔

حیرت تو مجھے اس بات پر ہے کہ غالب کے شعر کو اس دیدہ دلیری سے پیش کرتے ہوئے انہیں یہ بھی خیال نہ آیا کہ اگر یہ وار الٹا پڑ گیا تو کالئے کا کیا بنے گا۔

کوئی باہوش شخص تو درد اور مرض کو قریب المفہوم تو کیا بعید المفہوم بھی قرار نہین دے سکتا۔ اور پھر غالب جیسے خیال بند عالم شاعر سے عروض کی مرکزیت کی توقع کرنا انتہائی علمی جہالت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ان دونوں الفاظ کے دیگر پہلوؤں کے علاوہ کیا غالب سامنے کی اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ درد اور مرض۔ ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم نہیں ہیں۔ایک آدمی کسی مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے مگر ضروری نہیں کہ اسے درد بھی ہو۔ اسی طرح جسے درد ہو ضروری نہیں کہ اسے کوئی مرض بھی لاحق ہو۔

اب آگے چلئے۔ زبان و بیان اور عروض کے اس ماہر کا اگلا بیان سنئے۔

جمیل الرحمن کے ایک تعارفی نوٹ میں اس بات کا ذکر بھی ہے کہ وہ اردو زبان و ادب،علم المعانی و علم البیان میں بھی خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں انہوں نے اپنی نظموں میں اس بات کا کس حد تک خیال رکھا ہے ابھی معلوم ہو جاتا ہے۔
(سبحان اللہ۔ بی مینڈکی کے تیور دیکھئے)
پہلی غلطی ان کے وضاحتی نوٹ کے آخری جملے میں موجود ہے۔۔۔۔۔
"ایک نظم گو کے لئے عروض کی حیثیت ثانوی ہو جانی چاہئے۔"
یہاں انہوں نے مصدر "جانا چاہئے" کو "جانی چاہئے" لکھا ہے جو قواعد کی رو سے غلط ہے
(ایضاً۔ صفحہ نمبر41)

لیجئے صاحب۔ ابھی تو عروض کی مہارت ہی کا رونا تھا۔ اب تو زبان پر بھی چھالے پڑ رہے ہیں۔ لیکن ذرا ٹھہرئے۔قواعد کے اس ماہر کا علم شاید صرف لفظ۔ مصدر۔ تک ہی محدود تو نہیں؟ ورنہ اتنے بڑے عالم کو یہ تو پتہ ہوتا کہ ایک حاصل مصدر بھی ہوتا ہے۔ ۔۔نہین نہیں صاحب۔ یہ عالم اور ان کے مدیر گرامی سے بہتر اردو کسے آ سکتی ہے۔ بیچارہ بہادر شاہ ظفر!۔۔جب قلعہ معلی ٰ میں رہتے ہوئے بھی اُسے اردو نہ آئی تو یہ طفل مکتب جمیل الرحمن کس باغ کی مولی ہے۔

پھر بھی کیا کروں۔ ظفر کا شعر سنائے بغیر دل نہین مان رہا۔ تو چلئے میری خاطر ہی وہ شعر سن لیجئے۔

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

ارے ارے۔ یہاں تو مصدر "کرنا" ہے۔۔ تو "بات کرنی" کیسے آ گیا۔ ؟
ثابت ہوا کہ عالم پناہ کی اردو بھی اُن کی سلطنت کی طرح لنگڑی تھی۔

لیکن ابھی بات ختم کہاں ہوئی ہے۔ ابھی تو فصاحت و بلاغت کے حوالے سے میرے کلام کی مزید خامیاں جاننے کے لئے آپ کو پورا مضمون پڑھنا پڑے گا۔ آخر دو افراد نے رسالے پر اتنا پیسہ لگا کر یہ مضمون چھاپا ہے۔ کچھ تو خیال کیجئے۔

جی۔ تو شیخانِ شیخ حضرت احسان سہگل مزید فرماتے ہیں۔

نظم "اک مٹھی آٹا لا دینا" کی سطریں
ناوقت صدائیں دینے لگے / بے طلب دعائیں دینے لگے

ناوقت کون سی زبان ہے۔ یہاں بے وقت ہی صحیح ہوتا۔

(سبحان اللہ۔اب اس شعر و ادب کے عالم کو کون سمجھائے کہ لفظی توازن کسے کہتے ہیں؟
بھلے آدمی۔ اگر مین دوسرے مصرعے میں بے طلب لکھ سکتا تھا تو پہلے مصرعے میں مجھے لکھتے ہوئے کیا تکلیف تھی۔؟ لگتا ہے موصوف کو شعری حس اور زبان کا جدلیاتی تصور چھو کر بھی نہین گیا۔اور نہ ہی موصوف کو یہ خبر ہے کہ فصاحت و بلاغت ایک مرتبے کے خیال کا نام ہے۔ فی نفسہ کوئی شے نہیں۔ اس کی اقدار اضافی ہوتی ہیں۔ اسی لئے فصاحت و بلاغت کے معیار تغیر پذیر رہتے ہیں۔ جو کل فصیح تھا وہ آج نہیں اور جو آج فصیح گنا جاتا ہے وہ کل فصیح شمار نہیں ہوگا۔ اسے لسانی جدلیت کہتے ہیں میرے بھائی۔

موصوف نے اسے غیر فصیح قرار دے کر غلط ہونے کا فتویٰ تو صادر فرما دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ "ناوقت" غلط کیوں ہے۔ اور اس ترکیب میں خرابی کیا ہے؟؟)


نظم "کہاں ہے وہ جس کے لئے" کی آخری سطر۔
الجھتے ہوئے خواب کی ہر گرہ کھولنی ہے۔
یہاں "کھولنا" مصدر ہے۔ موصوف نے کئی دوسری نظموں میں بھی مصدر کو غلط باندھا ہے۔

( مصدر والی بات کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں۔ مزید کیا کہوں )

نظم "بستی اور مسافر" کی آخری سطریں
کون ہے جو اُڑتے بادل کو ٹوک سکا ہے / کون ہے جو بہتی خوشبو کو روک سکا ہے

یہاں بہتی خوشبو کی بجائے "مہکی خوشبو" شاید بہتر رہتا۔ بہتی شے کو کسی نہ کسی طرح تھوڑا بہت روکا جا سکتا ہے۔

( اب کہئے۔ کیا اب بھی آپ کو شکایت ہے کہ متشاعروں کی فوج ظفر موج کہاں سے پیدا ہو جاتی ہے۔ جناب تبھی پیدا ہوتی ہے جب کسی بندے کو 65 سال کی عمر میں بھی یہ علم نہ ہو کہ خوشبو تو خود ایک مہک ہے۔ خوشبو کو مہکتا ہوا کہنے والا فاتر العقل تو کہلا سکتا ہے شاعر کہلوانے کا سزاوار نہیں ہو سکتا۔)

نظم "ماہی گیر" کی سطر
"مری طرح سے وہ بھی بہت اکیلا ہے"

یہاں "مری طرح سے" غلط ہے "مری طرح" درست ہے۔

( یا خدا۔ تُونے بھی کیسی کیسی مخلوق کے ہاتھوں میں قلم تھما دئے ہیں ؟ اب اس بزر جمہر کو کیا سمجھاؤں کہ "مری طرح" اور "مری طرح سے" میں کیا فرق ہے۔ ؟

بندۂ خدا۔ جب یہ کہا جائے کہ مری طرح تمہیں بھی مار پڑی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح مجھے مار پڑی ویسے ہی تمہین بھی پڑی۔ یعنی دونوں پر ہونے والے عمل میں کوئی مقداری فرق نہ رہا۔ اور جب یہ کہا جائے کہ مری طرح سے تمہیں بھی مار پڑی۔ تو ممکن ہے کہ دوسرے کو کم یا زیادہ مار پڑی ہو۔ یعنی مقداری نہیں بلکہ اقداری فرق آ گیا۔ کچھ سمجھ میں آیا۔ ماہر زبان و عروض یا پہلا بھی گیا۔؟)

آئیے اب آپ کو موصوف کے لسانی علم پر مبنی ایک بیان اسی صفحے پر سنواتے ہیں۔
موصوف فرماتے ہیں۔۔

نظم "دل کے افق پر، ہوا سے پہلے" کی سطر
"تیزئ غم سے پھوٹ بہیں پھپھولے"

یہاں تیزئ غم۔ غلط ہے کیونکہ فارسی اور عربی لفظ کے ساتھ اردو ہندی لفظ پر اضافت جائز نہیں۔ لیکن جمیل الرحمن اسے درست خیال کرتے ہیں۔اس عیب سے بچنے کے لئے یہاں "سُرعت غم" لایا جا سکتا تھا۔ اور بھی کئی نظموں میں انہوں نے اردو اور ہندی الفاظ پر (؟) اضافت لگائی ہے۔ جو اساتذہ کے نزدیک فصیح اور مستحسن نہیں ہے۔ البتّہ اردو اور ہندی اسم کے ساتھ اضافت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ اور اساتذہ نے برتا بھی ہے۔

( صاحبو۔ آپ خود ہی انصاف کرو۔ تیز۔ فارسی لفظ ہے یا ہندی۔ پھر۔ غم۔ کیا ہندی لفظ ہے یا عربی؟؟؟؟جس بندے کو یہ تک نہیں پتہ کہ کون سا لفظ کس زبان سے اردو میں آیا ہے وہ قلم پکڑ کر جو اناپ شناپ اس کے دماغ میں کلبلا رہا ہے لکھتا چلا جا رہا ہے۔ مزید برآں ایک شخص نے جب اپنے وضاحتی نوٹ میں اپنے موقف کی وضاحت صراحت سے کر دی ہے تو اس پر اس قسم کے اعتراض چہ معنی دارد۔ لیکن کیا کریں کچھ لوگوں نے فرضی مقدمے قائم کر رکھے ہیں۔ اور ان کے مرغ کی ٹانگ ہمیشہ ایک ہی رہے گی۔تو کوئی اُن کاکیا کر سکتا ہے)

نظم "میں خود سوچتا ہوں" کی سطریں
بلا ریب کوئی نہیں جانتا / میں خود سوچتا ہوں مجھے ایک مدت سے کیا ہو گیا ہے۔

بلا ریب کون سی زبان ہے۔ لاریب تو سنا اور برتا دیکھا ہے لیکن بلا ریب نہیں۔ اس کی جگہ
"حقیقت میں کوئی نہیں جانتا" درست ہوتا۔
دوسری سطر وزن میں نہیں ہے۔ وہی لفظ کی ناگزیریت والی بات لاگو ہو گئی ہے۔ حالانکہ یہ سادہ سی(؟) سطر اس طرح بھی ہو سکتی تھی۔ جس سے وزن بھی قائم رہتا ہے۔
"سوچتا ہوں میں خود بھی مجھے ایک مدت سے کیا ہو گیا ہے"
(ایضاً۔ صفحہ نمبر 42)

( کہئے۔ اب اس کا میں کیا جواب دوں؟یار جہالت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ یہاں تو یہ کہیں اپنی رونمائی سے باز ہی نہیں آرہی۔ اگر آپ کو عربی نہیں آتی حضرت یا آپ کو اگر یہ بھی پتہ نہیں کہ ب عربی میں حرف تاکید کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے تو آپ کس برتے پر تبصرہ کرنے چلے ہیں۔ اگر آپ نے یہ استعمال نہیں دیکھا تو اس مین میرا کیا قصور ہے۔اب دیکھ لیں۔ ویسے بلا شک کا لفظ دن میں دس مرتبہ استعمال ہوتا ہے۔ اسی کو دیکھ کر عبرت حاصل کر لی ہوتی۔باقی رہی وزن کی بات۔ تو جناب جب آپ کو یہ خبر ابھی تک نہیں پہنچی کہ لہجہ اور اسلوب کس بلا کا نام ہے اور لفظ کا جوہر کیا ہے تو آپ اپنی ڈفلی احمقوں کی طرح کیوں بجائے چلے جا رہے ہیں اگر آپ کا اصول شاعری تسلیم کر لیا جائے تو دنیا کی دو تہائی شاعری اسی طرح بے رس ہو کر رہ جائے گی۔ جس طرح کی جھک آپ اور آپ کے مدیر اعلیٰ ابھی تک مارتے چلے آ رہے ہیں )

دوستو ساری ضروری باتوں کا جواب دیا جا چکا اور تبصرہ نگار اور اسے شائع کرنے والے اس کے ہم خیال و باکمال مدیر کے مبلغ علم و ذہانت کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی۔باقی اعتراضات بھی اسی نوعیت کے ہین۔ جن کے جوابات دینے میں مجھے مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ضروری ہوا تو کسی وقت پھر اپنا اور آپ کا وقت ضائع کر لوں گا۔لیکن اس سے ایک بات سمجھ لیجئے کہ علم و ادب شیر مادر کی طرح ہاتھ نہین لگتے اورکسی سطح پر اگر ہاتھ لگ بھی جائیں تو جب تک جان توڑ ریاضت نہ کی جائے۔ ہضم نہیں ہوتے۔ سماعی علم کی بنیاد پر خود کو عالم سمجھنے والوں کا وہی حشر ہوتا ہے۔ جو آپ نے بزعم خود اس عالم کا ہوتا دیکھا ہے۔ اسی لئے بزرگوں نے کہا ہے کہ ہر سوراخ میں انگلی نہیں ڈالنی چاہئے۔ ہوسکتا ہے کسی میں سانپ بھی موجود ہو !!!

وما علینا الاالبلاغ

2 تبصرے:

Anonymous said...
This comment has been removed by a blog administrator.
Anonymous said...
This comment has been removed by a blog administrator.

Post a Comment