Friday, December 16, 2011

وعلیکم سلام حیدر قریشی صاحب

اشعر نجمی
Ashar Najmi
A QUESTIONNAIRE FOR HAIDER QURESHI (Editor, "Jadeed Adab", Germany)
(In reply of allegations on Shamsur Rahman Faruqi, Jameelur Rahman & Ash'ar Najmi)

وعلیکم سلام حیدر قریشی صاحب!

مقدمہ

حیدرقریشی سے یہ سوالات ان کے جریدہ "جدید ادب" (جرمنی) کے اس تازہ شمارے کے تناظر میں کیے جا رہے ہیں، جس کا معتدبہ حصہ نجی مخاصمت ، تعصب اور یاوہ گوئی پر مبنی ہے۔ انھوں نے خود ہی اپنے اداریے میں اس حقیقت کا اعتراف کر لیا ہے کہ یہ شمارہ کچھ پرانے حساب بے باق کرنے کے لیے عجلت میں نکالا جا رہا ہے۔ اس شمارے میں مدیر بے بدل نے بطور خاص شمس الرحمن فاروقی، عمران شاہد بھنڈر، جمیل الرحمن اور اشعر نجمی کو اپنا ہدف بنایا ہے جب کہ زبیر رضوی اور ستیہ پال آنند پر بھی انھوں نے کئی جگہ ہاتھ صاف کیے ہیں۔ تقریباً 57 صفحات پر مشتمل حیدرقریشی کی ان تحریروں (جو مختلف عنوانات کے تحت لکھی گئی ہیں) کا ادب اور ادبی معاملات سے کوئی سروکارنہیں بلکہ ان کی کینہ پروری اور سفلہ پن کی واضح مثال ہیں جو تضادات سے بھی پر ہیں۔ حیدر قریشی جو "عمر لاحاصل" کے حساب کتاب سے اب فارغ ہوچکے ہیں، ان دنوں تقریباً ایک ریٹائرڈ زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ زندگی بھر وہ مختلف جگہ منھ مار تے رہے اور بیشتر جگہ منھ کی کھا تے رہے۔ جو تھوڑی بہت انھیں شہرت نصیب ہوئی ، وہ عمران شاہد بھنڈر کے مضامین کے طفیل ملی۔ اب یہ معاملہ بھی چونکہ سرد خانے میں جاچکا ہے ، چنانچہ لوگ حیدرقریشی اور ان کے جریدے کو دھیرے دھیرے بھولنے لگے ہیں۔ ممکن ہے ، یہ بات ہمارے لیے کوئی اہمیت نہ رکھتی ہو اور ہم اسے ایک عام واقعہ سمجھ کر نظر انداز کردیں لیکن ذرا اس شخص کے بارے میں سوچیے جس نے اپنی زندگی کے آخری عشرے میں اس شہرت کی صرف ایک جھلک دیکھی ہو جس کی تگ و دو میں اس نے اپنی "عمر لاحاصل" وقف کردی ہو؛ اس کے لیے یہ قطعی کوئی عام واقعہ نہیں ،بلکہ ایک حادثہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حیدرقریشی ہمارے غم و غصے کے نہیں بلکہ ہمدردی کے مستحق ہیں۔ ان دنوں وہ جس ذہنی دباؤ کے شکار ہیں، اس کی مثال اس شخص سے دی جاسکتی ہے جو ابھی سیراب بھی نہ ہوا ہو کہ جام اس کے لبوںسے الگ کردیا جائے۔ میرے خیال میں حیدرقریشی کی جھنجھلاہٹ فطری ہے لیکن انھیں یہ ضرور یا درکھنا چاہیے کہ قدرت اوقات سے زیادہ کسی کو نہیں نوازتی۔ لیکن مدیر موصوف کی حریصانہ طبیعت اسے تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے، چنانچہ وہ سرد راکھ میں پھونک مار کر چنگاری پیدا کرنے کی لا حاصل کوشش میں مصروف ہیں۔

اس کے علی الرغم حیدرقریشی کے اندر شہرت طلبی کی آگ اتنی بھڑکی ہوئی ہے کہ اس میں سب کچھ جل کر راکھ ہوچکا ہے۔ انھوں نے تہذیب اور اخلاقیات کے وہ بنیادی اصول بھی ان شعلوں کی نذر کر دیے ہیں جن کا پاس عموماً ہر معقول شخص اختلاف اور دشمنی کرتے وقت بھی رکھتا ہے۔ نجی خطوط ، ایمیل اور فون کالس کو رسد بنا کر اپنے مخالفین کے خلاف محاذ آرائی کرنے کا یہ عمل ہندوستان میں ایمرجنسی کے دنوں کی یاد تازہ کردیتا ہے جو اس ملک کی جمہوری تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔ لیکن ہمارے مدیر صاحب ، جنھیں اپنی ادبی حیثیت کا ضرورت سے کچھ زیادہ ہی احساس ہے، وہ اس اخلاقی زوال پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپنے مقابل کو للکارتے ہیں کہ "میں جس پر ہاتھ ڈالتا ہوں، پکا ڈالتا ہوں۔" لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بار انھوں نے غلط جگہ ہاتھ ڈال دیا ہے۔

حیدرقریشی کی یہ تحریریں دراصل ایک مشن کے تحت سلسلہ وار لکھی گئی ہیں ۔ غور سے ان تحریروں کا تجزیہ کریں تو کچھ چونکادینے والی باتیں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً
(1)
بڑی چالاکی کے ساتھ عمران شاہد بھنڈر پر سرقے کا الزام عائد کیا گیا اور اسی رسالے کے ذریعہ عائد کیا گیا جس نے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقے کی نشان دہی میں عمران کی مدد کی تھی،
(2)
اسی شخص کو اس مشن کا سربراہ بنایا گیا جو کل تک نارنگ کو سارق ثابت کرنے کے مہم میں سربراہ ہو ا کرتا تھا،
(3)
نارنگ کے داغدار دامن کو دھونے کی غرض سے ضروری تھا کہ فاروقی پر بھی یہی الزام لگے۔ چنانچہ ابو محمد سحر کے حوالے سے یہ کوشش کی جا چکی ہے لیکن نہ تو حوالوں اور دلائل سے اسے ثابت کیا جاسکا اور نہ ہی آج تک کسی نے اس کا اس طرح نوٹس لیا، جس طرح نارنگ کے سرقے کا لیا گیا تھا۔ لیکن اب بھی حیدرقریشی کی تحریروں میں اس کی ایک موہوم جھلک دیکھی جا سکتی ہے،
(4)
فاروقی کے ہمدردانہ مشورے کو دھمکی کا رنگ دینے والے حیدرقریشی کا موقف بالکل واضح ہے کہ وہ اس قضیے کو بھی نارنگ بنام فاروقی قرار دے کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں،
(5)
کل تک جو لوگ نارنگ کے سرقے کی مذمت کرنے میں عملی طور پر پیش پیش تھے، ان سبھی کو چن چن کر اپنا ہدف بنا یا گیا اور اسی شخص کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا جو کل تک ان کی بزعم خود سربراہی کررہا تھا،
(6)
نارنگ کے سرقے کو ایک عام ادبی اور غیر اہم واقعہ قرار دینے کے لیے بھی اسی شخص کا انتخاب عمل میں آیا جس نے مسلسل اپنے جریدے کے کئی شمارے اسے اہم اور سنگین بنانے میں خرچ کردیے تھے۔

اگر ہم مندرجہ بالا چھ منطقی نکات کا حاصل نکالنے کی ذرا سی بھی کوشش کریں تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ حیدر قریشی تجدید شہرت کی خاطر کون سا کھیل کھیل رہے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے اپنے گلے میں کس کی غلامی کا پٹہ ڈال رکھا ہے۔ یہ محض الزام نہیں ہے بلکہ ابھی کچھ ہی دیر میں میرے سوالوں سے یہ دعویٰ ثابت ہوجائے گا ۔ فی الحال میں یہاں صرف یہ کہنے پر اکتفا کروں گا کہ نارنگ نے حیدر کی جو قیمت لگائی ہے ، وہ کافی بڑی ہے۔ کسی کے لیے اس سے زیادہ بڑی سزا بھلا اور کیا ہوسکتی ہے کہ اسے خود اپنے ہی وجود کی تردید کے کام پر لگا دیا جائے جو فی الحال مدیر موصوف خوشی خوشی انجام دے رہے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں حیدرقریشی سے براہ راست کچھ سوال کروں، یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے تمام سوالات "جدید ادب" کے تازہ شمارے میں شامل مختلف عنوانات کے تحت شائع متعلقہ تحریروں پر مبنی ہیں۔ اگرچہ ان سوالوں کی ساخت کچھ یوں رکھی گئی ہے کہ وہ محض سوالات نہیں بلکہ بین السطور تجزیے کا بھی روپ لے لے۔ لیکن پھر بھی میں قارئین سے درخواست کروں گا کہ ان سوالات کو ان کے درست سیاق و سباق میں سمجھنے کے لیے "جدید ادب" میں شامل ان تحریروں پر ایک نظر ضرور ڈال لیں جو ان کی محرک ہیں۔ ان تحریروں کے مطالعہ کے لیے نیچے ایک لنک دیا جار ہا ہے جس پر کلک کرکے مطلوبہ شمارے تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

جدید ادب ، شمارہ:18 -- Download Link

سوالات

1
آپ نے اپنے اداریے میں اپنی تحریر "فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی" (جو زیر نظر شمار ے میں بھی شامل ہے) ، کا "شان نزول" بتاتے ہوئے فرمایا ہے کہ "اصلاً یہ عمران بھنڈر کا مجھ پر کچھ قرض تھا، جس کی اس میں ادائیگی کی گئی تھی ۔"پھر آگے چل کر مختلف انداز میں اسی بات کو آپ دہراتے رہتے ہیں جیسے
٭ "2008 سے میرا حساب کتاب چلا آ رہا تھا اور وہ حساب بے باق کرنا لازم تھا۔"
٭ "عمران بھنڈر کے ساتھ اپنا پرانا معاملہ طے کرنا آسان ہو گیا۔"
٭ "فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی" میں ان کا قرض اتار دیا۔
وغیرہ وغیرہ۔
تو کیا آپ کا یہ معصوم اعتراف اس بات کی جانب واضح اشارہ نہیں کہ آپ نے صرف اپنا پراناحساب بے باق کرنے کی غرض سے عمران پر سرقے کا بے بنیاد الزام عائد کر کے دانستہ ان کی کردار کشی کی کوشش کی ؟
2
اگر آپ اپنے عائد کردہ الزامات کے تعلق سے واقعی اتنے ہی غیر جانب دار ہیں جتنا آپ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تو پھر آپ نے عمران کے وہ دو جوابات زیر نظر شمارے میں شائع کیوں نہیں کیے جن میں آپ کے دعووں کو انھوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا ہے اور جو متعدد بار فیس بک اور انٹرنیٹ کے کئی فورم میں شائع بھی ہوچکے ہیں؟ اب آپ خدا کے لیے یہ نہ کہیں (جیسا کہ آپ کہتے چلے آئے ہیں) کہ فیس بک اور اس طرح کے فورم آپ کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کیوں کہ آپ نہ صرف عرصۂ دراز سے مختلف لوگوں کے خلاف یہیں محاذ آرائی کرتے رہے ہیں بلکہ اپنی تحریروں میں شامل کئی اقتباسات بھی یہیں سے اٹھائے ہیں۔ اپنے سوال کو ایک بار پھر دوسرے الفاظ میں دہراتا ہوں کہ کیا آپ کو یہ خوف تھا کہ عمران کے جواب کو شائع کرنے سے آپ کی تحریر کردہ 57 صفحات پر مشتمل فضول گوئی اپنا تاثر کھو دے گی اور اسی لیے آپ نے حسب دلخواہ صرف کچھ اقتباسات پر ہی اکتفا کیا اور اپنے قارئین کو عمران کے دونوں جواب کے مکمل متن سے ناواقف رکھنے میں ہی اپنی بھلائی سمجھی؟ کیا یہ بددیانتی نہیں ہے؟ کیا یہ اپنے قارئین کے ساتھ دھوکا نہیں ہے؟
3
آپ کا کہنا ہے کہ
"ان کی (یعنی عمران کی) ایک ہی اہمیت تھی کہ وہ ترجمہ بلاحوالہ کے اقتباسات آمنے سامنے لا رہے تھے اور بس!"
ایک دوسری جگہ آپ فرماتے ہیں کہ
"عمران بھنڈر کا یہ کام حقیقتاً بہت ہی جزوی نوعیت کا ہے۔"
اتنا ہی نہیں بلکہ آپ اپنے ہی گود لیے ہوئے ایک اور رسالے"عکاس" کے مہمان مدیر ڈاکٹر نذر خلیق کی بات کو بار بار شدت سے دہراتے ہیں کہ نارنگ کے بلا حوالہ ترجمہ کو عمران سے پہلے فضیل جعفری، سکندر احمد ، احمد ہمیش وغیرہ نشان زد کرچکے تھے ، چنانچہ عمران نے کوئی نیا انکشاف نہیں کیا تھا۔ اگر آپ کی یہ بات درست ہے تو پھر کیا آپ کے یہ دعوے آپ کے قول و فکر کے تضادات کو نمایاں اور آپ کی بدنیتی کو نشان زد نہیں کرتے ہیں، مثلاً
٭ نیرنگ خیال (راولپنڈی) میں 2006 میں عمران کے متعلقہ مضمون چھپنے کے واقعہ پر آپ کچھ یوں روشنی ڈالتے ہیں، " میں نے مضمون نگار عمران شاہد بھنڈر کو تلاش کرکے ان سے رابطہ کیا۔۔۔انھیں اسی مضمون کو کچھ مزید لکھ کر جدید ادب کے لیے بھیجنے کہا۔"
٭"جیسے ہی موصوف (عمران شاہد) کا مضمون شائع ہوا، علمی و ادبی حلقوں میں اس کا فوری نوٹس لیا گیا اور مختلف اخبارات و رسائل نے اس مضمون کے بلا حوالہ ترجمہ والے حصوں کو نمایاں طور پر شائع کیا۔" ٭ "جدید ادب نے اس مسئلہ کو جھاڑ پونچھ کر ادبی دنیا کے سامنے پیش کیا تو اس کے بعد ادبی دنیا اس سے آگاہ ہوئی۔"
٭آپ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ جاوید حیدر جوئیہ کے مضمون کا جواب بھی آپ کی فرمائش پر عمران نے لکھا۔
٭آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ اختلاف ہونے کے باوجود مصلحت (موقع پرستی کو کیا خوب نام دیا ہے ) سے کام لیتے ہوئے آپ نے "عکاس" کے نارنگ نمبر کے لیے عمران سے ہاتھ ملا لیا۔
٭آپ یہ دعویٰ بھی بار بار کرتے ہیں کہ آپ نے یہ لڑائی تنہا لڑی ہے وغیرہ وغیرہ۔

تو برادر مکرم! اب آپ ہی اس گتھی کو سلجھانے میں میری مدد فرمائیے کہ اگر آپ کی پہلی بات درست ہے یعنی اگر واقعی عمران نے کوئی نیا انکشاف نہیں کیا تھا یا ان کا کام جزوی نوعیت کا تھا تو آپ نے اتنی مغز ماری کیوں کی؟ کیوں عمران کو ڈھونڈ کر رابطہ قائم کیا؟ کیوں اپنے پرچے کے کئی شمارے اس قضیے کے لیے وقف کردیے؟ کیوں آپ نے فرمائش کر کر کے عمران سے مضامین لکھوائے؟ اور کیوں آپ اس جزوی نوعیت کے کام کے لیے تنہا لڑائی لڑتے رہے؟
4
آپ کا عمران پر الزام ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ فضول گوئی کرتے ہیں۔ کم سے کم الفاظ میں ان کے پاس کہنے کا سلیقہ نہیں ہے۔ کیا یہی الزام آپ کی زیر نظر تحریر کو دیکھ کر آپ پر عائد نہیں کی جاسکتی؟ زیر نظر شمار ے کے 57 صفحات میں ایک ہی بات کی تکرار، کیا سمندر کو کوزے میں بھرنے کے مترادف ہے جس کا مشورہ آپ عمران کو دیتے رہے ہیں؟ عمران فلسفے کے طالب علم ہیں، لہٰذا ان کے مضامین میں فلسفیانہ افکار کا پایا جانا فطری ہے ۔ آپ تو ادب کے آدمی ہیں لیکن آپ کی زیر نظر تحریروں میں ادبی معاملات کا نہ پایا جانا یقینا افسوس کا مقام ہے۔ رہی بات طوالت کی، تو وہی آدمی فضول خرچ ہوتا ہے جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے مال ہوتا ہے۔ ننگا نہائے گا کیا اور نچوڑے گا کیا؟
5
آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ "اس سلسلے میں ایک شخصیت کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جس نے مغربی کتابوں کے اقتباسات اور نارنگ صاحب کی کتاب کے اقتباسات پر کافی کام کیا ہے۔ محنت میں کسی اور کا حصہ شامل تھا لیکن اس کا پھل بھنڈر صاحب اکیلے کھا رہے تھے؟" اگر آپ کو یہ بات معلوم تھی تو پہلے کیوں نہیں بتائی؟ لیکن چلیے جیسا کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ آپ "دو محاذوں پر ایک ساتھ " نہیں لڑ سکتے تھے ، لیکن اب تو بتا دیجیے۔ اب اس "شخصیت" کانام نہ بتانے میں کون سی مصلحت پوشیدہ ہے؟
6
آپ نے شمیم طارق کے اس ردعمل کو، جو عمران کے خلاف اور نارنگ کی حمایت میں تھا اور جو میرے سہ ماہی "اثبات" (ممبئی)کے تیسر ے شمارے میں شائع ہوا تھا اور جسے آپ نے مجھ سے لے کر "عکاس" کے نارنگ نمبر میں چھاپا تھا ، اس کے حوالے سے آپ بار بار مکتوب نگار کی پیٹھ تھپتھپاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "شمیم طارق نے عمران شاہد کو ادھیڑ کر رکھ دیا"۔ لیکن آپ کا آج سے دو سال قبل اس خط پر کچھ اور ہی ردعمل تھا۔ آپ نے اپنے ردعمل (جو سہ ماہی" اثبات" کے چوتھے اور پانچویں مشترکہ شمارے میں شائع ہوچکا ہے) میں کہا تھا، "آپ نے شمیم طارق کی باتوں کے جواب میں اچھا لکھا ہے۔ مجھے لگا کہ آپ نے انھیں مزید کھلنے کا موقع دیا ہے۔ سو ان کے ساتھ اس بحث کو مزید آگے چلنا چاہیے۔ نارنگ صاحب کے سرقوں کا دفاع کرنے والوں کے کمزور دلائل یا پوچ موقف اور نارنگ صاحب کی مجرمانہ خاموشی دونوں کو مزید کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ " کیا میں آپ سے دریافت کرسکتا ہوں کہ آپ کے موقف کی اس انقلابی تبدیلی کا محرک کیا ہے؟
7
آپ کو اپنے نئے دوست اور نارنگ کے غالی قسم کے تنخواہ دار حمایتی نظام صدیقی کی یہ بات بڑی پیاری لگتی ہے کہ عمران نے پی ایچ ڈی وغیرہ نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے رجسٹریشن بھی نہیں کیا ہے ،تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ الٹا یہ الزام خود عمران کے حق ہی میں جا تا ہے کیوں کہ اگر بالفرض محال یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ وہ برمنگھم یونیورسٹی میں فلسفۂ مابعدجدیدیت پر پی ایچ ڈی نہیں کررہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ نصابی نہیں ہیں بلکہ فلسفۂ مابعد جدیدیت پر ان کا آزادانہ مطالعہ ہے ۔ اور اسی مطالعے کی بنیاد پر انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور گذشتہ صدی کے سب سے بڑے سرقے کا انکشاف بھی کیا۔
8
آپ نے ایک جگہ انکشاف کیا ہے کہ آپ کو احمدی اور بہائی سلسلہ کے الزامات سے معتوب کیا جاتا رہا ہے ، حتیٰ کہ طالبانی وغیرہ بھی کہا جاتا رہا ہے ۔ آپ نے ان الزامات کے تعلق سے یہ بالکل درست فرمایا کہ ان الزامات کا ادب اور ادبی معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ لیکن آپ کا یہی زریں اصول عمران شاہد کے معاملے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ آپ عمران پر جو الزام عائد کررہے ہیں ، کیا واقعی ان کا تعلق ادب اور ادبی معاملات سے ہے؟ اگر عمران چالیس سال کی عمر میں خود کو نوجوان کہہ رہے ہیں تو اس پر آپ کیوں شرمسار نظر آ رہے ہیں؟ اگر وہ کسی پرائمری اسکول کے ٹیچر بھی نہیں ہیں ، اور بقول آپ کے ڈبل ایم اے کر کے بیکار پھر رہے ہیں تو اس سے ان کی علمی شخصیت کہاں تہ و بالا ہو رہی ہے؟ اگر عمران نے اپنی کتاب کی رونمائی کے لیے بھاگ دوڑ کی اور کئی اخباروں میں اس کی روداد چھپوائی تو آپ کیوں سلگ اٹھے؟ اگر وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا ایک بیٹا بھی ہے تو اس سے فلسفۂ مابعدجدیدیت پر کون سا اثر پڑتا ہے؟
9
آپ اپنے حدود سے آگے جا کر عمران کو جس طرح "غیر شادی شدہ باپ " کہہ کر ان کی کردار کشی کرتے ہیں، کیا یہ ادبی اور علمی اختلاف کا کوئی نیا پیرایہ ہے جس کے موجد آپ کہلانا چاہتے ہیں؟ کیا اسی تہذیب اور اخلاقیات پر آپ اتنا اتراتے ہیں ؟ کیا اسی کا نام شائستگی ہے جس کی توقع آپ اپنے مخالفین سے رکھتے ہیں؟ کیا تہذیب و اخلاقیات کا وہ پاٹھ جو آپ اپنی تحریروں میں جمیل الرحمن اور اشعر نجمی کو پڑھانا چاہتے ہیں ، آپ خود کو ان سے مبرا سمجھتے ہیں؟
10
آپ عمران پر جگہ جگہ یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ فرضی ناموں سے آپ پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں۔ آپ نے اس سلسلے میں بطور خاص سلمان شاہد، اقبال نوید اور حسین چوہان کے نام بار بار لیے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا جبریل علیہ السلام نے آپ کو یہ بات بتائی ہے کہ ان حضرات کے ردعمل خود ان کے نہیں ہیں بلکہ عمران کے تحریر کردہ ہیں؟ آپ کا یہ شک کن بنیادوں پر ہے ، ان پر شواہد و دلائل سے بات کریں ، صرف ہوا میں لاٹھیاں گھمانے سے کام نہیں چلے گا۔ کیوں کہ بالکل یہی الزام آپ فاروقی پر بھی لگا چکے ہیں، جمیل الرحمن اور مجھ پر لگاچکے ہیں، حتیٰ کہ نارنگ پر بھی آپ کافی پہلے یہی الزام عائد کرچکے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا آپ خود کو اتنا بڑا تیس مار خاں تصور کرتے ہیں کہ آپ سے دو بدو جنگ لڑنے کی کسی میں صلاحیت نہیں ہے؟ چلیے تسلیم کرلیا کہ آپ کے جتنے مخالفین ہیں، سب بزدل ہیں لیکن یہ آپ کیسے ثابت کریں گے کہ خود آپ بھی ارشد خالد اور ڈاکٹر فریاد آزر کے نام سے انٹر نیٹ فورم اور فیس بک پر محاذ آرائی کرتے رہے ہیں، کیوں کہ یہ دونوں حضرات تو آدھی رکعت کے بھی نہیں ہیں، پوری نماز کیا خاک پڑھیں گے؟
11
جہاں تک اقبال نوید کی بات ہے جن پر آپ کا شک ہے کہ ان کے نام سے خود عمران شاہد لکھتے ہیں ، تو آپ کو یاد دلانا چاہوں گا کہ جب زور کا رن پڑا تھا تو یہ آپ ہی تھے جنھوں نے ظفر اقبال کے جواب میں اقبال نوید کے مضمون کی ان پیج فائل بغرض اشاعت مجھے بھیجی تھی اور جسے میں نے چھاپ بھی دیا تھا۔ وہ ایمیل آپ کو نہ ملے تو مجھے کہیے گا، میں آپ کو فارورڈ کردوں گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ جس شخص کے مضمون کی سفارش کل تک آپ مجھ سے کررہے تھے، وہ اچانک نقلی کیسے ہوگیا؟ اس کی صلاحیت پر آپ کو کیوں شک ہونے لگا؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ آپ کے مخالف خیمے میں ہے؟
12
آپ نے اپنی پوری تحریر میں نارنگ کے سرقے کے لیے ایک نئی اصطلاح "ترجمہ بلا حوالہ" ڈھونڈی ہے ، جب کہ اس سے قبل آپ نہایت ہی جارحانہ انداز میں اسے "سرقہ" حتیٰ کہ "ڈاکہ" کہتے رہے ہیں۔ مجھے آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ متبادل اصطلاح جو نسبتاً نرم بھی ہے، کیا اسے استعمال کرنے کا مقصد نارنگ کے سرقے کی سنگینی کو کم کرنا ہے؟
13
نارنگ کے سرقے کے تعلق سے آپ کا تازہ موقف یہ ہے کہ "اس سارے قضیے کو اکیلے نارنگ صاحب پر فوکس کرکے دیکھنے کے بجائے ان سارے نقادوں کے تراجم بلا حوالہ کے ساتھ جوڑ کردیکھا جائے جنھیں اردو ہی کے متعدد ادیب مختلف اوقات میں نشان زد کرتے رہے ہیں؟" تو کیا یہ مان لیا جائے کہ آپ نے اسی جواز جوئی کی خاطر عمران شاہد بھنڈر پر ایک فرضی سرقے کا الزام عائد کیا ہے؟ اور کیا اسی لیے آپ کے دوسرے بھائی بندھو فاروقی پر سرقے کا الزام لگا کر نارنگ پر سے فوکس ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں؟
14
اسی ضمن میں آپ فرماتے ہیں،
"ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب پر ترجمہ بلا حوالہ کا جو الزام ہے، اس کے جواب وہی دے سکتے ہیں۔ تاہم اب اگر مولانا حالی، شبلی نعمانی، علامہ نیاز فتح پوری، ڈاکٹر محی الدین زور، حامد اللہ افسر، سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر سلیم اختر، ملک حسن اختر اور وقار عظیم جیسے معتبر نام بھی ترجمہ بلا حوالہ کے سلسلہ میں سامنے آگئے ہیں اور عمران بھنڈر کی جعلسازیاں اور سرقہ (یہاں آپ نے "ترجمہ بلا حوالہ" نہیں لکھا ہے، کیوں کہ یہ الزام نارنگ پر نہیں بلکہ عمران پر لگ رہا ہے) بھی سامنے آگیا ہے تو یقینا نارنگ صاحب پر لگے الزام کو بھی اسی مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے اور دوستی دشمنی کی سطح سے بلند ہو کر دیکھنا چاہیے۔ اگر بیس پچیس لوگوں نے ملتا جلتا کام کیا ہے تو سب کے ساتھ ایک اصول کے تحت سلوک کیا جانا چاہیے۔ مذکورہ بالا جید ناموں کے نام سامنے آنے کے بعد اب میرا موقف بالکل سیدھا سادہ ہے۔ جن لوگوں نے اردو ادب میں کوئی قابل ذکر کام کیا ہے، ان کے مجموعی کام کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کسی پر ترجمہ بلا حوالہ کا الزام ہے تو اسے کسی تعصب اور ترجیح کے بغیر پرکھنا چاہیے۔ پھر اگر یہ کمزوری ثابت ہوجاتی ہے تب بھی اس کی دوسری خدمات کی نفی نہیں کی جا سکتی۔"

اس لمبے چوڑے اقتباس میں آپ نے کئی قلا بازیاں کھائی ہیں اور کئی بار منھ کے بل بھی گرے ہیں۔ مثلاً آپ نے اپنی تحریروں میں کئی جگہ اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ آپ عرصۂ دراز سے سارقوں کی تلاش میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ اب تک آپ کو ان الزامات کی خبر نہیں تھی جو مندرجہ بالا جید ناموں پر لگ چکے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ نارنگ سے ہاتھ ملاتے ہی آپ پر وحی نازل ہوگئی اور ان تمام جید ناموں کی فہرست آپ کے پاس پہنچ گئی؟ لیکن یہ تو بتائیے کہ اس وحی کو آپ کے پاس کیا نارنگ کا کوئی کارندہ لے کر آیا تھا؟ یہ سوال اس لیے کررہا ہوں، کیوں کہ جب سے نارنگ کا سرقہ منظر عام پر آیا ہے، تب سے نارنگ کئی بار اپنے انٹرویو اور مختلف بیانات میں ان جید عالموں پر لگائے گئے الزامات کی آڑ میں خودکو بچانے کی ناکام کوشش کرتے رہے ہیں۔ (اس ضمن میں حوالے کی ضرورت ہو، تو وہ بھی آپ کو مہیا کرادیا جائے گا)۔ دوسری بات یہ کہ ابھی کچھ دنوں پہلے تک آپ خود ہی کہتے تھے کہ یہ بیسویں صدی کا سب سے بڑا ڈاکہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ان جید عالموں پر لگے الزامات کے اصل سے واقف تھے اور نارنگ کے لفظ بہ لفظ ترجمے کی سنگینی سے بھی باخبر تھے ۔ تیسری بات یہ کہ نارنگ صاحب پر الزام ثابت ہوچکا ہے ، اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض کردوں کہ جو ثابت ہوجائے، اسے الزام نہیں جرم کہا جاتا ہے۔ اس لیے مجرموں اور ملزموں کے درمیان فرق کرنا سیکھیے۔ چوتھی بات یہ کہ اگر واقعی ترجمہ بلا حوالہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اور اردو کے کئی بڑے نام بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے رہے ہیں تو پھر اس کی چھوٹ صرف نارنگ کو کیوں ملے، عمران کو بھی کیوں نہ ملے؟ لیکن اس کے برخلاف آپ نارنگ کے سرقے کی جواز جوئی کے لیے دور کی کوڑی لاتے ہیں لیکن عمران کا سر ایک ہی جھٹکے میں قلم کردینا چاہتے ہیں۔ آخر اس منافقت کی وجہ کیا ہے؟ اگر کوئی راز ہے تو جانے دیجیے، اپنی زبان سے نہ کہیے ورنہ نارنگ سے دوستی پھر کھٹائی میں پڑ جائے گی۔ پانچویں بات یہ کہ آپ کے اصول کے مطابق سارق کے مجموعی کام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اصول صرف نارنگ کے لیے آپ نے وضع کیے ہیں یا اس کا اطلاق دوسروں پر بھی ہوتا ہے؟ یہ معمولی سی بات اس لیے دریافت کرنی پڑ رہی ہے ، کیوں کہ آپ تو عمران کی دوسری تمام خدمات سے منھ موڑے بیٹھے ہیں بلکہ انھیں یکسر رد کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ اگر آپ فلسفے سے اتنے ہی بے زار ہیں تو یہ آپ کا مسئلہ ہے، عمران اور ان کے قارئین کا نہیں ۔ ان کے طویل مضامین آپ کے پلے نہیں پڑتے تو یہ آپ کی کند فہمی یا کور چشمی ہے۔ ضروری نہیں کہ ادب کے دوسرے طالب علموں کے لیے بھی ان کے مضامین دلچسپی کے باعث نہ ہوں۔ اس کے برعکس آپ کی دلچسپی نان ایشوز پر اپنا قلم گھسنے میں ہے، ممکن ہے کہ عمران کو اس میں کوئی دلچسپی نہ ہو ۔ عرض مدعا یہ ہے کہ ایسی چیزوں کا تعلق ہر فرد کی پسند اور ناپسند کے ساتھ ساتھ اس کی لیاقت اور بے بضاعتی پر انحصار کرتی ہے۔ جس کا دامن جتنا کشادہ ہوتا ہے، وہ اتنی چیزیں سمیٹ لیتا ہے۔ اس ضمن میں میرا آپ سے آخری سوال یہ ہے کہ اگر واقعی جید ناموں کے سامنے آنے سے نارنگ کا کیس کمزور ہوگیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی ساری کوششیں بھی بے کار چلی گئیں لیکن اس کے برخلاف آپ اپنی تحریروں میں اب بھی خود کو تنہا لڑنے والا سورما بھی بتا رہے ہیں اور "معرکہ سر کرنے کا " دعویٰ بھی کررہے ہیں؟ یہ فکری تضاد ہے یا شخصی منافقت؟
15
آپ فرماتے ہیں کہ "اگر نارنگ صاحب کے دوستوں کے ساتھ اتنی ورکنگ ریلیشن شپ بن جائے تو مجھے یقینا اس انوکھی مخالفت کا مقابلہ کرنے میں سہولت ملے گی۔" لیجیے صاحب بلی خود ہی تھیلے سے باہر آگئی۔ اب تک آپ یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ اشعر نجمی اور جمیل الرحمن نے یہ افواہ اڑائی ہے لیکن اب تو خود اپنی ہی زبان سے آپ نارنگ کے تنخواہ داروں کو آوازیں لگا رہے ہیں؟ کیا اب بھی اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی ہے کہ آپ نارنگ کا کام کررہے ہیں اور اسی کام کے تحت آپ نے ان کے کچھ مزدوروں کو آواز لگائی ہے تاکہ وہ بھی نارنگ کے دامن پر لگے داغ کو دھونے میں آپ کی مدد کریں۔ آپ کے کام میں ظاہر ہے کہ عمران پر فرضی سرقے ثابت کرنا، فاروقی پربے بنیاد الزامات عائد کرنا، جمیل الرحمن کی شاعری کو یکسر رد کرنا، اشعر نجمی کو گھیرنا وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو آواز لگانے کی ضرورت کیوں پڑگئی؟ کیوں کہ اس کار خیر میں نارنگ کے سارے تنخواہ دار جی جان سے پہلے ہی آپ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً گذشتہ دنوں بھدوہی (وارانسی)سے نکلنے والے رسالے میں آپ کی "شیلا " اپنی جوانی دکھا رہی ہے۔ ظاہر ہے آپ اس پرچے کی تاریخ سے واقف ہی ہوں گے۔ یہ وہی رسالہ ہے جس کے مدیر کو کل تک نارنگ صاحب کے حمایتی "مٹھائی فروش" کہا کرتے تھے (یہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں تھا) ۔ اور مدیر صاحب ببانگ دہل خود کو فاروقی کا "امتی" قرار دیتے تھے، حتیٰ کہ وہ اس کا عملی مظاہر ہ کرتے ہوئے فاروقی کی ہاتھوں کو آنکھوں سے لگاتے اور چومتے تھے (یہ نظارہ ان گنہگار آنکھوں کا دیکھا ہوا ہے) لیکن سرکاری اشتہار کے لیے آج کل وہ نارنگ کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور خود کو نارنگ کا "امتی" بتارہے ہیں اور کل تک انھیں "مٹھائی فروش" کہنے والے آج کل ان کی مٹھائی کی دکان اور ان کے رسالے پر عیش کر رہے ہیں۔ خیر میں یہ سب آپ کو کیوں بتارہا ہوں ، یہ تو خو د کو آپ کے بھی علم میں ہے اور اس سے آپ کو کیا فرق پڑتا ہے۔ کیوں کہ آپ کا مرتبہ بھی آپ کے بھدوہی والے پیر بھائی سے کم نہیں۔
16
"جمیل الرحمن کی چالیس سالہ شاعری کا سفر اور نتیجہ" کے اسی شمارے میں اشاعت کا محرک کیا ہے؟ اگرچہ یہ مضمون جمیل الرحمن کے جس شعری مجموعے پر مشتمل ہے، وہ برسوں پرانا ہے لیکن چلیے ذرا دیر کے لیے میں آپ کی بدنیتی کو در گذر کرتا ہوں لیکن آپ سے یہ ضرور دریافت کرنا چاہوں گا کہ اگر واقعی آپ اس سلسلے میں غیر جانب دار ہیں ، تو کیا آپ ادب کے جمہوری تقاضوں کے پیش نظر "جدید ادب" کے آئندہ شمارے میں جمیل الرحمن کا وہ مدلل جواب، جو فیس بک پر آ چکا ہے، شائع کرنے کی بھی ہمت رکھتے ہیں؟
17
آپ جس جمیل الرحمن کو اب فاروقی کا "کارندہ" کہہ رہے ہیں، وہ ماضی میں آپ کے جھگڑوں کو نپٹاتے رہے ہیں۔ صرف ایک واقعے کی یاد دلانا چاہوں گا۔ ان دنوں جب میں اپنی کاروبارانہ مصروفیت کے سبب کسی کا فون نہیں اٹھا رہا تھا (اور بقول آپ کے انڈر گراؤنڈ ہوگیا تھا)، اسی زمانے میں جمیل الرحمن نے آپ کی نمائندگی کرتے ہوئے مجھے ایک فون کیا تھا جسے میں نے اتفاق سے اٹھا بھی لیا تھا۔ انھوں نے جب میرے سامنے آپ کی شکایت کا ذکر کیا تو اس میں اس "شک" کا بھی حوالہ تھا جسے سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ میرے ایک فون نہ اٹھانے سے آپ کا "بے لگام تخیل" اتنی بلند ی (یا پستی؟) پر جا سکتا ہے۔ آپ کو مجھ پر یہ شک تھا کہ میں آپ کے احمدی/قادیانی فرقے سے تعلق ہونے کے سبب آپ کا فون نہیں اٹھا رہا ہوں۔ حالاں کہ اس سے پہلے مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ میرا آپ سے ادبی تعلق تھا اور اس تعلق کے لیے مذہب، مسلک اور فرقہ وغیرہ میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ لیکن آپ نفسیاتی مریض ٹھہرے، لہٰذا آپ کا شکی مزاج ہونا فطری ہے۔ آپ کو یاد ہوگا (نہ ہو تو' ریکارڈ' محفوظ ہے) کہ میں نے ایمیل کے ذریعہ آپ کو اس پر زبردست قسم کی ڈانٹ پلائی تھی جس کے جواب میں آپ نے شرمندگی کا اظہار بھی کیا تھا اور معافی بھی مانگی تھی (کہیے تو آپ کا معافی نامہ سب کے سامنے حاضر کردوں)۔ یہاں اس واقعے کا ذکر کر کے آپ کو مزید شرمندہ کرنا مقصد نہیں بلکہ یہ بتانا مقصد ہے کہ آپ کس حد تک شکی واقع ہوئے ہیں اور کس طرح آپ کے حواس پر "عدم تحفظ" کا احساس ہمیشہ سوار رہتا ہے۔ کیا جمیل الرحمن سے ناراضگی کا سبب بھی کچھ ایسا ہی ہے؟
18
آپ کا جمیل الرحمن پر الزام ہے کہ انھوں نے فیس بک پر آپ کا مضمون پوسٹ کرنے کے بعد اس پر عمران شاہد بھنڈر کے جواب کے لیے انھیں بار بار کیوں آواز دی؟ سب سے پہلی بات تو یہ کہ خود آپ ہی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ جمیل الرحمن ہی تھے جنھوں نے آپ کے مضمون "فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی" کو فیس بک پر متعارف کرایا ۔ تو بھائی، اس پر تو عمران شاہد بھنڈر کو ان سے خفا ہونا چاہیے تھا، اور آپ کو ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ؟ اچھا اچھا، اب سمجھا ۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ وہ صرف آپ کا مضمون وہاں شائع کرتے، عمران کو جواب کے لیے آمادہ نہ کرتے۔ لیکن یہاں پھر ایک سوال اٹھتا ہے کہ انھوں نے عمران کو جواب لکھنے کے لیے اتنی بار آواز نہ لگائی ہوگی جتنی بار آپ خود انھیں جواب دینے کے لیے للکار چکے تھے اور ہنوز للکار رہے ہیں۔ تو کیا للکارنا علاحدہ بات ہے اور اس للکار کا جواب جھیل پانا دوسری بات ہے؟ کیا آپ اب تک صرف اپنی "مردانگی" کی تشہیر کے لیے عمران کو للکارتے رہے ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر عمران نے فیس بک کے احباب کے اصرار پر اپنے جوابات پوسٹ کردیے تو آپ دم دبا کر وہاں سے کیوں کھسک گئے؟
19
آپ کا الزام ہے کہ جمیل الرحمن نے فیس بک پربدتمیزی کی۔ سب سے پہلے تو آپ "بدتمیزی" کے معنی بتائیے۔ اس لیے پوچھ رہا ہوں کیوں کہ مجھے شک ہے کہ اس کا آپ کے پاس کوئی انوکھا مفہوم ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کو ارشد خالد کی وہ بدتمیزیاں نہیں دکھائی دیں جو انھوں نے جمیل الرحمن سے کی تھیں۔ لیکن وہ آپ کو دکھائی کیسے دے گی ، کیوں کہ وہ تو آپ ہی تھے اور "پردے کی بُو بُو" کی حیثیت سے جمیل الرحمن پر اپنا غصہ اتار رہے تھے۔ اس کا اظہار تو اسی وقت سبھی نے فیس بک پر کر بھی دیا تھا۔ 'بدتمیزی' کے حوالے سے میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک اختلاف رائے کو بھی بد تمیزی میں شمار کیا جاتا ہے؟ کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ فریق مخالف کے جوابات کو آپ اسی رنگ میں رنگ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ تو کیا آپ اپنی تحریروں کے تعلق سے اتنے خوش گمان ہیں، گویا ان سے اختلاف رائے معاذاللہ صحیفۂ ٔ آسمانی سے اختلاف کے مترادف ہے اور اسی ارتداد کی سز ا جمیل الرحمن کو ان کی چالیس سالہ شاعری پر ایک جاہل مطلق کے "فرمائشی تجزیے "کی شکل میں دی گئی ہے؟
20
آپ نے جب پہلی بار "فلسفی کی نوجوانی اور شیلا کی جوانی" مجھے ایمیل کی تھی تو میں نے اس کا جواب نہیں دیا ، کیوں کہ پہلی نظر میں بھانپ گیا تھا کہ آپ ان دنوں ذہنی قلاشی کے دور سے گذر رہے ہیں اور آپ اس معاملے کو دوبارہ دوسرے انداز میں گرم کرنا چاہتے ہیں، جو سرد ہوچکا ہے۔ لیکن آپ پے درپے اپنا مذکورہ مضمون مجھے بھیجتے رہے لیکن میری جانب مکمل خاموشی چھائی رہی۔ آپ نے ایک بار ایمیل کے ذریعہ مجھے متنبہ بھی کیا تھا،
"فلسفی کے کانٹیکسٹ میں بھیجی گئی میل پر آپ کی (شاید معنی خیز) خاموشی کو دیکھ رہا ہوں"
(6 اگست 2011)۔
پھر بھی میں نے آپ کو اپنے جواب سے محروم رکھا۔اب آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا، اور ایک بار پھر آپ کے اس " احساس عدم تحفظ" نے اپنا سر اٹھانا شروع کردیا تھا، لہٰذا، آپ نے تنگ آ کر مجھے ایک دھمکی بھرا ایمیل کیا ، جس کا صرف ایک پیراگراف حاضر خدمت ہے:
"میری کوشش ہے کہ ہمارے درمیان اس خبیث شخص (یہاں عمران شاہد کے لیے حیدرقریشی کی شائستہ زبان ملحوظ رہے، جس کا دعویٰ وہ بار بار کرتے رہتے ہیں)، کی وجہ سے جھگڑا نہ بڑھے۔ ہمارے ہاں دوستی نہیں تو خاموشی ہی رہے لیکن اگر مجھے پرانے دوستوں نے اس خبیث کی وجہ سے نئی لڑائی میں دھکیلا تو پھر مجھے بے حد افسوس کے باوجود اس لڑائی کو کسی انجام تک پہنچانا ہوگا۔"
(11 اگست 2011)
آپ نے اس ایمیل میں عمران شاہد کے لیے تقریباً چھ بار "خبیث" استعمال کیا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ اپنی زیر نظر تحریروں میں "فاروقی کے کارندوں" کو شائستگی اور تہذیب و اخلاقیات پر لکچر بھی پلاتے ہیں۔ آپ کے اس دھمکی بھرے خط جس کا عنوان "یاد رہے" تھا، اس کے جواب میں، میں نے بعنوان "یاد ہے" ، آپ کو جو لکھا تھا، وہ بھی درج ذیل ہے:
"آپ نے پے درپے مجھے اتنے ایمیل کیے ہیں جس سے لگتا ہے کہ آپ کو میرے متعلق ایک بار پھر (پہلے بھی آپ میری خاموشی کو مسلکی رنگ دے چکے ہیں) غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری خاموشی اتنی معنی خیز نہیں ہے جتنی آپ سمجھ رہے ہیں۔ بات بس اتنی سی ہے کہ آپ کے اور عمران شاہد کے درمیان جو معاملہ ہے، وہ بالکل ذاتی قسم کا ہے اور مجھے اس میں قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ اگر مستقبل میں کوئی ادبی و علمی تنازعہ پیش آتا ہے تو حسب سابق میں اپنے موقف سے آپ کو ضرور آگاہ کروں گا۔ آپ نے فاروقی صاحب کے موقف کا حوالہ بار بار دیا ہے لیکن ضروری نہیں کہ میں بھی اس سے اتفاق رکھوں۔"
(14 اگست 2011)

آگے بڑھنے سے قبل یہاں واضح کردوں کہ میرے ایمیل میں فاروقی کے موقف کا جو ذکر آیا ہے وہ دراصل آپ نے اپنے ایمیل کے دوسرے پیراگراف میں رقم کیا تھا اور جس کا حوالہ آپ نے اپنے زیر بحث طول طویل مضمون میں بھی جا بجا کیا ہے (اس پر سوال میں بعد میں کروں گا)۔ فی الحال ان دونوں ایمیل کے حوالے سے میرا آپ سے یہی سوال ہے کہ کیا میری خاموشی آپ کے لیے اس قدر سوہان روح ثابت ہوئی جس کے لیے آپ نے اس احقر و کمتر پر اپنے موقر جریدے کے اتنے صفحات ضائع کیے؟
21
آپ مجھے فاروقی کا کارندہ کہتے ہیں لیکن آپ بھول جاتے ہیں کہ میں اس طرح کا "کارندہ" تو ہرگز نہیں ہوں جس طرح کے آپ پہلے وزیر آغا کے ہو اکرتے تھے اور اب نارنگ کے ہیں۔ یا میں اس طرح کا بھی نہیں ہوں جس طرح کے ارشد خالد اور فریاد آزر آپ کے کارندے ہیں۔ میں کس طرح کا "کارندہ" ہوں ، اس کا کچھ اندازہ تو آپ درج بالا میرے جواب ہی سے لگا سکتے ہیں۔ آپ بار بار مجھے ایمیل کر کے فاروقی کی دہائی دیتے رہے حتیٰ کہ فاروقی کا اوریجنل ایمیل تک مجھے فارورڈ کیا لیکن میرا جواب تھا ، " ضروری نہیں کہ میں بھی اس سے اتفاق رکھوں۔" اب بتائیے جناب عالی! میں فاروقی کا کس قسم کا کارندہ ہوں جو ان کی ہر بات سے اتفاق بھی نہیں رکھتا اور فاروقی کے منع کرنے کے باوجود عمران شاہد کو اپنے پرچے میں نہ صرف مسلسل چھاپتا بھی رہا ہے بلکہ اب تک سچ اور جھوٹ کے اس میدان کارزار میں ان ہی کے ساتھ کھڑا نظر آ رہا ہے؟
22
آپ اس بات پر شاکی ہیں کہ اشعر نجمی نے رفیع رضا کے تاثرات میں سے وہ حصہ کیوں حذف کردیا جس میں نارنگ کے سرقے کے انکشاف کے تعلق سے آپ کے اور جدید ادب کے سبقت لے جانے کی بات شامل تھی۔ یہاں آپ پر ترس آتا ہے کہ آپ کس قدر نجی مفادات کی گرفت میں ہیں۔ صرف ایک جگہ آپ کا ذکر نہیں آیا تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ گئی یعنی یہ "جہاد" آپ صرف اپنی ناموری کے لیے لڑ رہے تھے ۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو موضوع کی اہمیت سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ آپ کی دلچسپی صرف اتنی ہوتی ہے کہ کتنی جگہ اس حوالے سے آپ کا ذکر ہوا ہے۔ آپ کو ہر جگہ کریڈیٹ چاہیے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آپ ایک جگہ کہتے ہیں،
"جلوس کے آگے دوسرے لوگ اپنے جھنڈے اور بینر لے کر آگئے۔ اب جمیل الرحمن، زبیر رضوی اور اشعر نجمی اس معرکے کے میرکارواں ہیں۔ (سب کہو سبحان اللہ)"
آپ کی حریصانہ طبیعت صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ آپ بار بار جتاتے ہیں کہ "نارنگ صاحب سے 90 فی صد جنگ اپنے بل پر لڑی تھی؟"
محولہ بالا حوالوں کی روشنی میں آپ سے صرف ایک چھوٹا سا سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ عمران کے مضامین کے بغیر یہ جنگ ایک فی صد بھی لڑ سکتے تھے؟
23
مجھے ذاتی طور پر کسی بھی معرکے کا میر کارواں بننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے میری جانب سے تو آپ اطمینان رکھیے کہ میں نے اپنے جھنڈے اور بینر لپیٹ لیے ہیں (اب کہیے شکر اللہ)۔ لیکن کچھ آپ ہی کے فرمودات یہاں نقل کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
آپ نے کبھی فرمایا تھا کہ
"جدید ادب کے بعد آپ نے انھیں تھوڑی کوریج دی ہے وگرنہ شاید ہی کوئی اچھا ادبی رسالہ ان کے طول طویل مضامین کی اشاعت افورڈ کر سکے۔۔۔"
(27 جون 2009) ۔
اس کے علاوہ بھی آپ کئی جگہ اس بات کا پہلے ہی اعتراف کر چکے ہیں کہ سہ ماہی "اثبات" نے شمارہ:3 میں "تعزیت برائے مابعد جدیدیت" نام کا ایک گوشہ (جس میں آپ کے پرچے کے شمارہ نمبر 12 کی کہانی بھی آپ کی زبانی شامل تھی) چھاپ کر ہندوستانی قارئین کی ایک بڑی تعداد کو بیسویں صدی کے سب سے بڑے ادبی سرقے سے متعارف کرایا۔ کیوں کہ آپ کا پرچہ "جدید ادب" کا سرکو لیشن پاکستان میں تو غنیمت ہے لیکن بہت کم ہندوستانی قارئین اس کے نام تک سے واقف ہیں۔ تو کیا آپ اس سے انکار کریں گے کہ ہندوستان میں اس سرقے کو اتنے بڑے پیمانے پر مشتہر کرنے کا سہرا سہ ماہی "اثبات" کے سر ہی بندھتا ہے؟
24
چلیے، آپ کی خوشی کے لیے میں یہ سہرا اپنے سر سے اتار کر آپ کے سر باندھنے کو بھی تیار ہوں لیکن ذرا اس راز سے تو پردہ ہٹائیے کہ آپ کی فنڈنگ پر چلنے والے رسالہ "عکاس" (اسلام آباد) کے جس نارنگ نمبر کا آپ بار بار بڑی شان سے ذکر کرتے ہیں، اسے نکالنے میں میرا اور "اثبات" کا کیا تعاون رہا ہے؟ کیا آپ نے اس کے لیے مجھ سے "تعزیت برائے مابعد جدیدیت" کی ان پیج فائل نہیں منگوائی تھی؟ کیا آپ اس بات سے انکار کریں گے کہ آپ کو میں نے اپنا اداریہ، شمیم طارق اور فضیل جعفری کے مضامین کی ان پیج فائل آپ کی فرمائش پر بھیجی تھی؟ کیا آپ اس بات سے بھی انکار کریں گے کہ خود آپ کا مضمون "شمارہ نمبر 12 کی کہانی" سب سے پہلے "اثبات" میں ہی چھپا تھا؟ کیا آپ اس سے انکار کریں گے کہ آپ کو کئی مضمون نگاروں کی تصویریں حتیٰ کہ نارنگ کی تصویربھی میں نے ہی آپ کو ارسال کی تھی جو "عکاس" کے نارنگ نمبر کے ٹائٹل کور پر جگمگا رہی ہیں؟ کیا آپ کو آپ کے ایمیل کے حوالے سے یہ یاد دلاؤں کہ آپ نے مجھ سے "عکاس" کا ہندوستانی ایڈیشن شائع کرنے کی درخواست کی تھی جسے میں نے رد کردیا تھا؟ کیا آپ کو یہ بھی یاد دلانا ہوگا کہ ہندوستان کے کچھ قارئین کے لیے آپ نے "عکاس" کے مذکورہ شمارے کی کئی کاپیاں بھیجی تھیں تاکہ میں انھیں تقسیم کرنے میں آپ سے تعاون کروں؟ اتنا ہی نہیں بلکہ شاید اب آپ کو یہ بھی یاد نہ رہا ہو کہ مجھے ایمیل کر کر کے "عکاس" کو محاذ بنا نے کے لیے آپ مجھ سے مشورے طلب کررہے تھے، لوگوں کے تبصرے منگوارہے تھے، حتیٰ کہ" ہندو دوستوں " کی بھی رائے کے لیے مجھ سے درخواست کررہے تھے۔ "پھر بھی یہ گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیں؟"
25
"عکاس" کے نارنگ نمبر کے حوالے سے میرا آپ سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر کس جذبے کے تحت آپ نے اپنے پرچے کے زیر نظر شمارے میں شامل اپنے تمام مضامین میں سے میرا نام آپ نے حذف کرکے اس کا پورا کریڈٹ اپنے حقہ بردار ارشد خالد کو دے دیا، جب کہ مذکورہ نمبر میں آپ نے ہر مضمون کے ساتھ "اثبات" کا حوالہ بھی دیا ہے؟ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ اب چونکہ آپ کے نئے اور "انقلابی" موقف سے متفق نہیں ہوں، اسی لیے اس کا سارا کریڈیٹ ارشد خالد جیسے آپ کے کارندے کو چلا جاتا ہے؟حالاں کہ رفیع رضا کے تاثرات سے صرف ایک سطر ایڈیٹ کرنے پر آپ میری گرفت سے نہیں چوکتے لیکن "میر کارواں" بننے کے لیے "اثبات" اور میرے تعاون کو سرے سے نظر انداز کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ کیا اسے آپ کی طبعی مناقت سے تعبیر کیا جائے؟
26
آپ مجھے زیر کرنے کی خاطر نفس موضوع سے ہٹ کر اپنے احسانات جتاتے ہیں کہ "جدید ادب " میں چھپی ہوئی نگارشات بھی منگوا کر اشعر نجمی رسالے میں چھاپتے رہے ہیں۔" یہ بالکل درست ہے کہ آپ نے اپنے احباب کی کچھ چیزیں مجھے شائع کرنے کے لیے ارسال کی تھیں جن میں آپ کے کئی مضامین اور آپ کے کارندے ارشد خالد کی کئی نظمیں بھی شامل تھیں۔ ان میں سے کچھ چیزوں کو میں نے چھاپا بھی، لیکن آپ اتنے بڑے منافق اور جھوٹے واقع ہوئے ہیں کہ آپ نے مدیرانہ چالاکی کے ساتھ اس میں"جدید ادب میں چھپی ہوئی نگارشات" کا بھی اضافہ کردیا اور قارئین کو یہ تاثر دیا کہ اشعر نجمی جدید ادب میں چھپی ہوئی نگارشات سے اس قدر متاثر تھے کہ وہ انھیں منگواکر چھاپتے تھے۔ اگر آپ واقعی سچ کہہ رہے ہیں تو میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں کہ آپ میرے کسی بھی ایمیل سے یہ ثابت کردیں کہ میں نے آپ سے "جدید ادب" میں چھپی ہوئی نگارشات منگوائی ہو؟
27
آپ بار بار انٹرنیٹ فورم ، گروپس اور فیس بک وغیرہ کو لعن طعن کرتے رہیں لیکن خود چوبیس گھنٹے یہیں مشغول بھی رہتے ہیں۔ مختلف آئی ڈی کے ذریعے اپنے مخالفوں کا یہیں شکار بھی کرتے ہیں ، خواہ وہ نارنگ ہوں یا عمران یا کوئی اور۔ آپ اپنے مضامین میں اس بات پر خوب تالیاں پیٹتے ہیں کہ اشعر نجمی کو فریاد آزر نے کس طرح "مدلل"(؟) جواب دیا۔ لیکن آپ کی مدیرانہ اور شاطرانہ ذہنیت کا کمال یہ ہے کہ دونوں جانب کی بحث میں سے صرف اپنی پسند کے اقتباسات چن چن کر اپنے مضمون میں شامل کر لیتے ہیں تاکہ آپ کے قارئین اس سے وہی نتیجہ بر آمد کریں جو آپ چاہتے ہیں۔ کیا آپ میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ فریاد آزر اور میرے درمیان اس سلسلے میں "بزم قلم" پر جو بحث چلی تھی وہ پورے تسلسل کے ساتھ "جدید ادب" میں شائع کردیں؟
28
فریاد آزر کی تحریروں پر میں نے پہلے شک کا اظہار کیا تھا کہ ان کے نام سے کسی اور نے کمان سنبھال لی ہے ۔ میرے اس شک کو آپ نے یقین میں بدل دیا کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہی تھے جنھوں نے اس بحث میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ کیوں کہ جس طرح آپ اپنے مضمون میں فریاد آزر کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی طرف سے خواہ کوئی بھی لکھ رہا ہو یہ بات اتنی اہم نہیں ہے۔ تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ اگراقبال نوید اور حسین چوہان کے نام سے عمران شاہد لکھ رہے تھے تو وہ بات کیسے اہم ہوگئی؟
29
آپ نے فریاد آزر کے نام سے نارنگ کے سرقے کی صفائی میں مجھے جو جواب "بزم قلم" پر دیا تھا، وہ من و عن آپ کے زیر نظر مضمون کی کلید ہے۔ یہ حیرت انگیز مماثلت ہی اس بات کا اشارہ ہے کہ آپ ہی وہ "پردے کی بو بو" ہیں جو کبھی فریاد آزر کے نام سے تو کبھی ارشد خالد کے نام سے انٹرنیٹ گروپس ، فورم اور فیس بک میں اپنے مخالفین سے ہاتھا پائی کرتے رہے ہیں۔ لیکن جب آپ کو وہاں سے رگیدا جاتا ہے تو پھر عورتوں کی طرح ٹسوے بہانا شروع کردیتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر "سنجیدہ شخصیتوں" کا فقدان ہے۔ ممکن ہے کہ آپ کے فرہنگ میں "سنجیدہ شخصیت" کے معنی "حمایتی" کے ہوں تو پھر میں آپ کو مشورہ دوں گا کہ یہاں آپ کی دال نہیں گلے گی کیوں کہ اس جگہ آپ کے کارندوں کا تسلط نہیں ہے ۔
آپ فریاد آزر کے حوالے سے مجھ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ میں نے فریاد آزر کے جواب میں غیر سنجیدہ جواب دیا تھا۔ انھوں نے (یا آپ نے) کئی جید نقادوں اور اردو ادب کے کئی عالموں کے نام گنوا کر نارنگ صاحب کے سرقے کو دفاع کرنے کی کوشش کی تھی اور ان ناموں میں وہی نام تھے جو آپ نے اپنے مضامین میں درج کیے ہیں اور جس کا جواب میں پہلے ہی دے چکا ہوں۔ لیکن چلیے آپ کے اطمینان کے لیے اس کا "سنجیدہ جواب" دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن رکیے، مجھے دینے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ آپ خود دے چکے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ " یہ صرف سرقہ نہیں بلکہ بیسویں صدی میں اردو ادب میں سرقوں کی بہت ساری وارداتوں کو مات کرتا ہوا بڑا ادبی ڈاکہ ہے" (سہ ماہی "اثبات"، شمارہ 4۔5)۔ یہ میرے الفاظ نہیں، آپ ہی کے ہیں لیکن بس ذرا زمانوں کا فرق ہے۔ اس زمانے میں آپ اردو ادب کے تما م جید نقادوں اور عالموں پر لگے سرقوں کے الزامات کا موازنہ بھی نارنگ کے سرقے سے نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اب اس کے برخلاف آپ اپنی ہی موقف کی تردید پر آمادہ ہیں۔ کیا اب آپ کو خود اپنے ہی اس جواب کی سنجیدگی پر کوئی شک ہے؟
30
آپ نے ایک مضحکہ خیز الزام بھی مجھ پر لگایا ہے کہ "بزم قلم" میں میرا خاصا نہیں بلکہ خاصے سے زیادہ عمل دخل ہے اور یہ بھی کہ فریاد آزر کی ممبر شپ میں نے ختم کرادی۔ میرے خاصے عمل دخل کے بارے میں تو شاید آپ کو جبرئیل امین نے اطلاع دی ہوگی لیکن ذرا ان سے یہ بھی دریافت کرلیتے کہ اگر واقعی میرا اتنا عمل دخل ہے تو پھر اسی فورم میں کئی ایسی چیزیں بھی پوسٹ ہوتی رہتی ہیں جن سے میں اتفاق نہیں رکھتا۔ مثلاً فاروقی کے خلاف کئی چیزیں اس گروپ میں پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل مولا بخش کی ایک تحریر یہیں پوسٹ ہوئی تھی جو فاروقی پر لگائے گئے سرقے کے بے بنیاد الزامات پر مشتمل تھی۔ فریاد آزر بھی اپنی غزلیں اس فورم میں خوب پوسٹ کرتے رہے ہیں۔ ایک بار ان کے شعر میں استعمال ایک لفظ "ادنا" کے املا پر لوگوں نے گرفت کی جس پر ان کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔ کیوں کہ وہ بیچارے اپنے نام کے ساتھ "ڈاکٹر " کا لاحقہ لگانے کے باوجود زبان و ادب کے اسرارو رموز سے بالکل پیدل ہیں ، لہٰذا میں نے ہی ان کا وہاں دفاع کیا اور حوالوں کی روشنی میں ثابت کیا کہ فریاد آزر کا املا درست ہے۔ اس وقت فریاد آزر مجھے "دانشور" اور خدا جانے کیا کیا کہہ رہے تھے لیکن اب آپ کی سرپرستی میں کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ اگر "بزم قلم" میں میرا خاصے سے زیادہ عمل دخل ہے اور میں نے ان کی ممبر شپ ختم کرادی تھی تو پھر ان کی ممبر شپ بحال کیسے ہوگئی؟ ظاہر ہے اس کا کریڈیٹ بھی مجھے ہی ملناچاہیے؟ اب آپ کی اطلاع کے لیے یہاں عرض کردوں کہ "بزم قلم" سے میرا وہی رشتہ ہے جو اس کے ایک عام صارف کا ہے۔ فریاد آزر کی بدتمیزیاں (جسے آپ چھپائے ہوئے ہیں ) اتنی بڑھ گئی تھیں کہ ایڈمن نے ان کی ممبر شپ ختم کردی اور یہی انصاف کا تقاضہ بھی تھا۔ کیا آپ کو فریاد آزر کی بدتمیزیوں کا' ریکارڈ' چاہیے(آپ کو دوسروں کا ریکارڈ رکھنے کا بہت شوق ہے نا)؟اور کیا آپ اپنے کارندے کی ان بدتمیزیوں کے ریکارڈ سے "جدیدا دب" کے قارئین کو واقف کرانے کا خطرہ مولنا پسند کریں گے؟
31
رہی بات اشعر نجمی کی زبان اور اخلاقیات کی، تو اس کی کچھ مثالیں اوپر دے چکا ہوں ۔ عمران شاہد بھنڈر پر آپ کا ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ ایک خاتون کی فرضی آئی ڈی کے ذریعہ آپ کو ایمیل بھیجتے رہے ہیں۔ مجھے آپ نے وہ ایمیل فارورڈ بھی کیے تھے اور اسی تناظر میں ، میں نے آپ کو اس وقت جواب بھی
دیا تھا لیکن حقیقت کیا تھی، یہ نہ میں اس وقت جانتا تھا اور نہ ہی اب جانتا ہوں۔ ممکن ہے کہ اس خاتون کی ایمیل آئی ڈی آپ نے خود ہی بنائی ہو اور عمران کے خلاف مواد اکٹھا کرنے کے لیے خود کو ہی گالی دے کر اپنے لیے ہمدردی بٹورنے کی کوشش کی ہو۔ آپ کی موجودہ ذہنی حالت دیکھ کر یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ "میر کارواں" بننے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔ لیکن چلیے تھوڑی دیر کے لیے یہ تسلیم کرلیتا ہوں کہ عمران نے کسی خاتون کی فرضی آئی ڈی سے آپ کو گالیاں دیں لیکن اس کے برخلاف آپ نے تو اپنی ہی آئی ڈی سے عمران کو گالیاں دیں۔ کم سے کم میری زبان اور اخلاقیات میں فریق مخالف کو "خبیث" اور "غیر شادی شدہ باپ" کہنا شامل نہیں ہے۔ کیا آپ کے یہاں یہ گالیاں مستحب ہیں؟
32
آپ نے بار بار فاروقی کا اپنے مضمون میں غیر ضروری طور پر ذکر کیا ہے اور بار بار صفائی بھی دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خود آپ کو یہ خوف تھا کہ آپ پہچان لیے جائیں گے کہ آپ اس قضیے کو فاروقی بنام نارنگ میں تبدیل کررہے ہیں تاکہ نارنگ کے وہ تمام تنخواہ دار اس "جنگ" میں آپ کا ساتھ دیں جنھیں آپ آواز لگاتے رہے ہیں۔ آپ نے فاروقی کے ایک ہمدردانہ اور دوستانہ مشورے کو بھی اسی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی، جب کہ زیر نظر شمارے میں منشا یاد (مرحوم) کا خط بھی شامل ہے جنھوں نے تقریباً وہی مشورہ آپ کو دیا ہے جو فاروقی نے دیا تھا۔ لیکن منشا یاد کے تاثرات آپ کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوسکتے تھے ، اس لیے انھیں نظر انداز کردیا گیا لیکن فاروقی کا نام ماحول کو گرم بنانے میں کافی معاون ثابت ہوسکتا تھا، اس لیے ان پر گھما پھرا کر کئی باتیں کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ آپ نے ان کے مخلصانہ مشورے کو بھی ایک جگہ "دھمکی" سے تعبیر کیا ہے اور پورے مضمون میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ عمران کی موافقت ان ہی کے اشاروں پر ان کے کارندے انجام دے رہے ہیں۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب فاروقی نے اپنے ایک کارندے (اشعر نجمی) کو عمران کا مضمون چھاپنے تک سے منع کیا ہو تو پھر وہ اسی شخص کی موافقت کیسے کرسکتے ہیں؟
33
فاروقی کو اس معاملے میں زبردستی گھسیٹنے کے لیے آپ کچھ غیر متعلقہ باتوں سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔ مثلا آپ کا دعویٰ ہے کہ فاروقی کے ناول "کئی چاند تھے سر آسماں" کی کہانی بکھری ہوئی تھی، آپ ہی نے اپنے تبصرے میں اسے مربوط کیا جس کے بعد لوگوں کی سمجھ میں پورا ناول آ گیا ۔ اول تو آپ کا اپنی پیٹھ تھپتھپانے میں کوئی ثانی نہیں ہے اور دوم یہ کہ آپ کی خود ستائی اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اس نے مرض کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اے میرے معصوم بھائی، اگر آپ اپنے تبصروں سے کسی ناول کی کہانی کو مربوط کرنے پر اتنے ہی قادر ہیں تو پھر سب سے پہلے اپنے لکھے گئے تمام افسانوں کی کہانی مربوط کیوں نہیں کرلیتے؟دوسرا سوال اس ضمن میں یہ ہے کہ غیر مربوط کہانی کیسی ہوتی ہے اور تبصرے سے اسے کیسے مربوط کیسے کیا جاسکتا ہے؟
34
آپ کا الزام ہے کہ آپ نے فاروقی کے مذکورہ ناول پر انگریزی ویب سائٹ میں جو اظہار خیال کیا تھا (لیکن آپ کا تو خیال ہے کہ انٹرنیٹ پر سنجیدہ شخصیتوں کی کمی ہے) ، اس کا ترجمہ "شب خون خبر نامہ" میں شائع کیا گیا لیکن اس ترجمے میں آپ کے نام کے ساتھ "Eminent Poet' کا لاحقہ حذف کردیا گیا۔ میں نے اوپر آپ کو نفسیاتی مریض کہا ہے تو یہ بے بنیاد ہر گز نہیں ہے، جس کا ایک ثبوت آپ کا یہ اعتراض بھی ہے۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ ہر شخص آپ کی دلجوئی کے لیے اشعر نجمی کی طرح آپ سے جھوٹ بولے؟ ایک ایمیل میں، میں نے آپ کی تسلی اور تسکین کے لیے کیا جھوٹ بول دیا،آپ تو اس پر ایمان ہی لے آئے۔ آپ نے یقین کرلیا کہ آپ واقعی 'Eminent Poet' ہیں لیکن جس طرح یہ ضروری نہیں کہ میں فاروقی کی ہر بات سے اتفاق کروں، اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ فاروقی میری ہر بات سے اتفاق کریں۔ ممکن ہے کہ ان کی نظر میں آپ کی شاعری جمیل الرحمن کی شاعری کے عشر عشیر بھی نہ ہو یا ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کو شاعر ہی نہ تسلیم کرتے ہوں۔ لیکن بھائی، انھوں نے آپ کی طرح آپ کی "چالیس سالہ شاعری کا سفر اور نتیجہ" کسی احسان سہگل جیسے جاہل مطلق سے لکھوا کر اپنے پرچے میں تو نہیں چھاپا؟
35
فاروقی کے تعلق سے میرا آپ سے ایک آخری لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ان کے ناول کی بکھری کہانی یا آپ کے 'Eminent Poet' ہونے سے ان کے انکار کا موجودہ تنازعہ سے کیا تعلق ہے؟ کیا اسی کا بدلہ چکانے کے لیے آپ نے فاروقی کو اس جگہ گھسیٹا ہے؟
36
آپ نے زیر نظر شمارے میں اس قضیے کے تعلق سے جتنے تاثرات چھاپے ہیں، وہ کتنی اصل حالت میں ہیں اور کتنے ایڈیٹید ورژن ہیں؟
37
اگر آپ نے مراسلوں میں کوئی کاٹ چھانٹ نہیں کی ہے تو پھر آپ نے معید رشیدی کا پورا مراسلہ کیوں نہیں چھاپا؟ آپ نے وہاں صرف یہ لکھ دیا ہے کہ تفصیلی تاثرات بعد میں۔ لیکن یہ اختصاص صرف معید رشیدی کے مراسلے کے لیے کیوں ؟ جب کہ آپ نے اپنی تعریف میں سارے خطوط تفصیلی چھاپے ہیں ۔ تو کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ معید رشید ی کے خط میں آپ کے لیے تعریف نہیںبلکہ اس میں آپ کی گرفت کی گئی تھی؟ کہیے تو میں ان کا خط دوبارہ آپ کے پاس بھیج دوں یا یہیں فیس بک پر شائع کردوں تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ آپ کتنے بڑے شاطر اور سازشی ہیں؟ انھوں نے ڈیڑھ صفحے پر مشتمل اپنے خط میں آپ سے بہت سارے سوالات کیے تھے جن میںایک سوال یہ بھی تھا کہ "کیا آپ کی نارنگ صاحب سے صلح ہوگئی ہے؟" لیکن آپ نے معید رشیدی کے ایک بے ضرر لیکن تعریفی جملے "میں آپ کی تمام باتوں سے متفق ہوں" کو بغیر کسی سیاق و سباق کے پیش کردیا۔ آپ نے اپنے قارئین کو یہ بتانے کی جرأت بھی نہیں کی کہ معید رشیدی آپ کی کن باتوں سے اتفاق کررہے ہیں؟ کیا آپ کا یہی وہ اصل چہرہ ہے جس پر آپ نے غیر جانب داری کا مکھوٹا چڑھا رکھا ہے؟ اسی بنیاد پر آپ سے یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ معید رشیدی کے مکتوب کی طرح آپ نے ایسے کتنے خطوط نہیں چھاپے جو آپ کے خلاف آئے تھے؟
38
آپ کے کچھ تکیہ ہائے کلام بھی ہیں مثلاً
"میرے مضمون کو بھرپور پذیرائی مل رہی ہے"،
"بڑے پیمانے پر رد عمل مل رہے ہیں"،
"مضمون کا پارٹ ٹو لکھ رہا ہوں" وغیرہ۔
ان کے علاوہ آپ کے ہاں "ریکارڈ" کا ریکارڈ بھی خوب بجتا ہے۔
کیا یہ بار بار دہرائے جانے والے جملے آپ کی اس حریصانہ ذہنیت کی عکاسی نہیں کرتے جس کے تحت آپ سیاسی رہنماؤں کی طرح ہمیشہ خبر میں بنے رہنا چاہتے ہیں؟
39
آپ بار بار کہتے ہیں کہ آپ کے خلاف اشعر نجمی اور جمیل الرحمن نے "افواہ سازی" کی اور "منظم طریقے" سے کی لیکن آپ کہیں یہ نہیں بتاتے کہ کون سی افواہ اور کیسا منظم طریقہ؟
40
آپ کہتے ہیں کہ کل تک اشعر نجمی آپ کو "سلام" پیش کررہے تھے۔ آپ کی یہ بات درست ہے کیوں کہ آپ نے عمران شاہد کے مضامین چھاپ کر بیسویں صدی کے سب سے بڑے سرقے کا انکشاف کیا تھا اور چونکہ میں آپ کی طرح کسی کے کارناموں کا اسے "کریڈیٹ" دینے میں نہیں جھجکتا، اس لیے پورے خلوص کے ساتھ میں نے آپ کو سلام بھی پیش کیا۔ لیکن آپ اپنی ہر بات پر مجھ سے"سلام " کی توقع کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟ بلکہ آپ کی غلط باتوں پر آپ کو "وعلیکم سلام" بھی کہوں گا جو ابھی پیش کررہا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ کو کسی نے کبھی "سلام" کیا بھی ہو تو آپ اس کے "وعلیکم سلام" سے اتنا کیوں گھبراتے ہیں؟

اختتامیہ

قارئین کرام!
مجھے افسوس ہے کہ میں نے ایک ایسے مسئلے پر آپ کا اور اپنا وقت ضائع کیا ، جسے قطعی ادبی یا علمی نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن چونکہ ہم سب انسان ہیں ، لہٰذا فوق البشر ہونے کا دعویٰ کرنا حماقت ہوگی۔ ہم سب ان تمام انسانی جذبات سے آراستہ ہیں جو خوبیوں اور خامیوں دونوں سے عبارت ہیں۔ کسی بات پر غصہ آنا اور اس کا ردعمل دکھانا بھی انسانی فطرت میں شامل ہے۔ حیدرقریشی کے زیر نظر طویل مضمون پر مجھے غصہ تو آیا تھا لیکن وہ کچھ ہی دیر قائم رہا۔ ان کا مضمون دوبارہ پڑھا تو ان کی حالت زار پر ترس آگیا۔ انھوں نے بار بار مجھے اپنا جواب بغیر میرے پرچے کا نام لیے "اثبات" میں چھاپنے کے لیے للکاراہے ۔ کیوں کہ جیسا کہ میں نے اپنے سوالات میں واضح کردیا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہیں اور اپنا ذکر کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ لوگوں کی زبان پر جاری رکھنا چاہتے ہیں یا بال ٹھاکرے کی طرح خبروں میں بنے رہنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے میرے پرچے میں میرا جواب چھاپنے کے لیے مجھے اکسایا ۔وہ جانتے ہیں کہ اس وقت سہ ماہی "اثبات" ہی ہندوستان کا وہ اکلوتا رسالہ ہے جس کے قارئین ادب کی" سنجیدہ شخصیتیں "ہیں، چنانچہ ان تک رسائی کے لیے مجھے چھیڑنا ضروری تھا تاکہ میں اپنا جواب وہاں شائع کر کے ان کا مقصد پورا کردوں۔ اسی لیے انھوں واضح طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ فیس بک اور انٹرنیٹ گروپس میں چھپنے والے ردعمل کو وہ خاطر میں نہیں لائیں گے۔ لیکن ان کے لیے جو میں نے سزا مقرر کی ہے ، وہ یہی ہے کہ انھیں "اثبات" میں اس اعزاز سے محروم رکھا جائے ۔ فیس بک اور انٹرنیٹ گروپس پر ہی ان کا فیصلہ ہوگا۔ اگر وہ چاہیں تو بے شک اپنا ردعمل "جدید ادب" کے آئندہ شمارے کے 100 صفحات پر دے سکتے ہیں لیکن میں پھر کہوں گا کہ ان کی ہر بات کا جواب یہیں دیا جائے گا۔ مجھے امید تو نہیں ہے کہ ان کے پاس اب کوئی دلیل یا ریکارڈ باقی ہو لیکن اگر وہ اپنی ڈھٹائی سے باز نہیں آئے تو پھر میں اپنے ترکش میں بچے ہوئے "تیر" بھی ان کی جانب روانہ کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔
لیکن فی الحال "وعلیکم سلام حیدر قریشی صاحب" کہہ کر رخصت ہوتا ہوں۔

4 تبصرے:

Anonymous said...
This comment has been removed by a blog administrator.
Anonymous said...
This comment has been removed by a blog administrator.
Anonymous said...
This comment has been removed by a blog administrator.
Anonymous said...
This comment has been removed by a blog administrator.

Post a Comment